جمعہ، 18 فروری، 2022

تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو

تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو

تم مہر ہو مہتاب ہو تم کون ہو

جو آنکھ بھی دیکھے تمہیں سرسبز ہو

تم اس قدر شاداب ہو تم کون ہو

تم لب بہ لب ،تم دل بہ دل ،تم جاں بہ

جاں

اک نشہ ہو اک خواب ہو تم کون ہو

جو دست رحمت نے مرے دل پر لکھا

تم عشق کا وہ باب ہو تم کون ہو

میں ہر گھڑی اک پیاس کا صحرا نیا

تم تازہ تر اک آب ہو تم کون ہو

میں کون ہوں وہ جس سے ملنے کے لیے

تم اس قدر بے تاب ہو تم کون ہو

میں تو ابھی برسا نہیں دو بوند بھی

تم روح تک سیراب ہو تم کون ہو

یہ موسم کمیابی گُل کل بھی تھا

تم آج بھی نایاب ہو تم کون ہو

چھوتے ہو دل کچھ اس طرح جیسے صدا

اک ساز پر مضراب ہو تم کون ہو

دل کی خبر دنیا کو ہے تم کو نہیں

کیسے مرے احباب ہو تم کون ہو

وہ گھر ہوں میں جس کے نہیں دیوار و

در

اس گھر کا تم اسباب ہو تم کون ہو

اے چاہنے والے مجھے اس عہد میں

میرا بہت آداب ہو تم کون ہو

1995

عبید اللہ علیمؔ

کسی خواب کی یہ ہم کو تعبیر نظر آئی

کس خواب کی یہ ہم کو تعبیر نظر آئی

زندان نظر آیا، زنجیر نظر آئی

سب اپنے عذابوں میں سب اپنے حسابوں

میں

دنیا یہ قیامت کی تصویر نظر آئی

کچھ دیکھتے رہنے سے، کچھ سوچتے رہنے

سے

اک شخص میں دنیا کی تقدیر نظر آئی

جلتا تھا میں آگوں میں روتا تھا میں

خوابوں میں

تب حرف میں یہ اپنی تصویر نظر آئی

دربار میں حاضر ہیں پھر اہلِ قلم اپنے

کیا حرف و بیاں میں ہے تاثیر، نظر آئی

کچھ خواب گلاب ایسے، کچھ زخم عذاب ایسے

پھر دل کے کھنڈر میں اک تعمیر نظر آئی

اک خواب کے عالم میں دیکھا کیے ہم دونوں

لو شمع کی شب ہم کو شمشیر نظر آئی

آبا کی زمینوں میں وہ کام کیا ہم نے

پھر ان کی زمیں اپنی جاگیر نظر آئی

1988

عبید اللہ علیم ؔ 

جمعرات، 17 فروری، 2022

ایک ایسی بھی ہوا آئے گی

 

ایک ایسی بھی ہوا آئے گی

جو ہر اِک زخم کو بھر جائے گی

یہ کنارے سے لپٹتی ہوئی موج

کبھی طوفاں بھی اٹھا لائے گی

پھول میں ہو کہ ہوا میں خوشبو

نور ہے نور ہی برسائے گی

اور یہ عشق و ہوس کی دنیا

تشنگی کے سوا کیا پائے گی

پھول بھی شاخ سے گر جائیں گے

شاخ بھی دھوپ سے مرجھائے گی

ہے سمٹتے ہوئے سائے کی صدا

اُٹھ یہ دیوار بھی گر جائے گی

کوئی احساس اگر ہے تو کہو

بات لفظوں سے نہ بن پائے گی

1964ء

عبید اللہ علیم ؔ

اب نہ اس سمت نظر جائے گی

 اب نہ اُس سمت نظر جائے گی

جیسے گزرے گی گزر جائے گی
صُورت زلف یہ تلوار سی رات
جیسے دل ہی میں اتر جائے گی
ہم پہ اب جو بھی قیامت گزرے
تیری دنیا تو سنور جائے گی
دور تک ہم ہی نظر آئیں گے
جس طرف بھی وہ نظر جائے گی
اس بدلتی ہوئی رفتار کے ساتھ
زندگی جانے کدھر جائے گی
اور کچھ دنوں میں جنوں کی اپنے
شہر در شہر خبر جائے گی
لمحہ لمحہ جو سمیٹی   ہے عمر
ایک لمحے میں بکھر جائے گی
1964ء
عبید اللہ علیم ؔ

چاند سا دل ہو چاندنی سا گداز

 چاند سا دل ہو چاندنی سا گداز

ورنہ کیا نغمہ ساز و نغمہ نواز

سننے والو اسے بھی سن لینا

صُورت زخم بھی ہے اِک آواز

جس کو دیکھو وہ دل شکستہ ہے

کون ہے اس جہاں کا آئینہ ساز

قید کی عمر ایسی راس آئی

سو رہی بازوؤں ہی میں پرواز

جس نے بخشے ہیں غم اُسی کیلئے

کر رہا ہوں دعائے عمرِ دراز

1962ء

عبید اللہ علیم ؔ

میرے ہر نقش کو


 

بدھ، 16 فروری، 2022

کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا

کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا

کس کی تلاش ہے تمہیں اور کون کھو گیا


آنکھوں میں روشنی بھی ہے ویرانیاں بھی ہیں

اِک چاند ساتھ ساتھ ہے اِک چاند گہہ گیا


تم ہمسفر ہوئے تو ہوئی زندگی عزیز

مجھ میں تو زندگی کا کوئی حوصلہ نہ تھا


تم ہی کہو کہ ہوبھی سکے گا مرا علاج

اگلی محبتوں کے مرے زخم آشنا


جھانکا ہے میں نے خلوت جاں میں نگارِ جاں

کوئی نہیں ہے کوئی نہیں ہے ترے سوا


وہ اور تھا کوئی جسے دیکھا ہے بزم میں

گر مجھ کو ڈھونڈنا ہے مری خلوتوں میں آ


اے میرے خواب آ مری آنکھوں کو رنگ دے

اے مری روشنی تو مجھے راستا دکھا


اب آبھی جا کہ صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جاؤں

اے میرے آفتاب بہت تیز ہے ہوا


یارب عطا ہو زخم کوئی شعر آفریں

اِ ک عمر ہو گئی کہ مرا دل نہیں دکھا


وہ دور آگیا ہے کہ اب صاحبان درد

جو خواب دیکھتے ہیں وہی خواب نارسا


دامن بنے تو رنگ ہوا دسترس سے دور

موجِ ہوا ہوئے تو ہے خوشبو گزیر پا


لکّھیں بھی کیا کہ اب کوئی احوالِ دل نہیں

چینخیں بھی کیا کہ اب کوئی سنتا نہیں صدا


آنکھوں میں کچھ نہیں ہے بجز خاکِ رہ گزر

سینے میں کچھ نہیں ہے بجز نالہ و نوا


پہچان لو ہمیں کہ تمہاری صدا ہیں ہم

سن لو کہ پھر نہ آئیں گے ہم سے غزل سرا


1970ء


عبید اللہ علیم ؔ

 

عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے

عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے

وہ زندہ لوگ مرے گھر کے جیسے مر سے گئے


ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ

نہ جانے کیا ہوا اِک آن میں بکھر سے گئے


بچھڑنے والوں کا دکھ ہو تو سوچ لینا یہی

کہ اِک نوائے پریشاں تھے رہ گزر سے گئے


ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی

کہ اک سفر میں رہے اور ہر سفر سے گئے


کبھی وہ جسم ہوا اور کبھی وہ روح تمام

اسی کے خواب تھے آنکھوں میں ہم جدھر سے گئے


یہ حال ہو گیا آخر تری محبّت میں

کہ چاہتے ہیں تجھے اور تری خبر سے گئے


مرا ہی رنگ تھے، تو کیوں نہ بس رہے مجھ میں

مرا ہی خواب تھے تو کیوں مری نظر سے گئے


جو زخم، زخم ِ زباں بھی ہے اور نمو بھی ہے

تو پھر یہ وہم ہے کیسا کہ ہم ہنر سے گئے



عبید اللہ علیم ؔ

 

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں

میں یہ کس کے نام لکھوں، جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں، مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غُنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بِکھر رہے ہیں

کبھی رحمتیں تھیں نازل اِسی خطۂ زمیں پر
وہی خطۂ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جُھرمٹ جو ہوا میں جُھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو، نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے، پسِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں

1971ء

عبید اللہ علیم ؔ

کوئی دھن ہو

 کوئی دھن ہو میں ترے گیت ہی گائے جاؤں 

درد سینے میں اٹھے شور مچائے جاؤں 


خواب بن کر تو برستا رہے شبنم شبنم 

اور بس میں اسی موسم میں نہائے جاؤں 


تیرے ہی رنگ اترتے چلے جائیں مجھ میں 

خود کو لکھوں تری تصویر بنائے جاؤں 


جس کو ملنا نہیں پھر اس سے محبت کیسی 

سوچتا جاؤں مگر دل میں بسائے جاؤں 


اب تو اس کی ہوئی جس پہ مجھے پیار آتا ہے 

زندگی آ تجھے سینے سے لگائے جاؤں


عبید اللہ علیم

دل دریچہ

 دِل دریچہ ...!! 


وہ اِک دریچہ کھلا ملے گا....!! 

وہ جس دریچے سے تیری یادوں کی خوشبو آئے ، 

وہی دریچہ ،

تمہیں خبر بھی ہے میرے حجرے میں جو اداسی ہے ،

وحشتیں ہیں ، اذیتیں ہیں ، 

تمہاری یادوں کی خوشبؤں سے ہی منسلک ہیں 

اور ایک بات اور گر کبھی بھی

 تمہیں ہو واپس جو لوٹنا تو

اسی دریچے سے لوٹ آنا ، 

وہی دریچہ ،

جسے کبھی دِل دریچہ تم نے کہا تھا ، 

بالکل وہی دریچہ ، 

کھلا ملے گا.... !!


معاذ فرہادؔ

معاذ فرہاد

خَاک یُوں بھی مرا غُرُور ہُوا !!

وُہ مِلا ، اور مِل کے دُور ہُوا !!


کیفِیَت! مُجھ مِیں غَم کی چھوڑ گیَا ،

جَب وُہ تھوڑا سَا بَا شعُور ہُوا !!


رنج بے بَس پڑَا رہَا مُجھ مِیں ،

اور سَارا مرا قُصُور ہُوا !! 


میرے مالِک! بلَائِیں ٹَال بُری ،

پَھر سے پیدَا کوئِی فطُور ہُوا !!


خستگِی مُجھ سے خَوف کَھانے لگی ،

پِی کے مے جَب کبھی بھی چُور ہُوا !!


کیا ہوں گُمرَہِیَوں کے رسْتے پَر ؟؟

دُور مُجھ سے مرَا صبُور ہوا !! 


میں دِوَانہ جہَان بَھر مِیں فَقَط ،

آپ کے نَام کا حضُور ہُوا !!


معاذ فرہادؔ 

میں نے دیکھا تو نہیں

 مینے دیکھا تو نہیں دیکھنے والا ہوگا !!

نور نے طور کو جس طرح سنبھالا ہوگا !! 


اتنی الفت سے بھلا کیسے بچا جا سکتا ہے 

عین ممکن ہے خدا نے ہی سنبھالا ہوگا !!


میرے اشعار فقط غم کی زباں بولتے ہیں 

ہر جگہ اِن میں اذیت کا حوالہ ہوگا !!


جب بناؤں گا میں پنسل سے حسیں چہرہ کوئی

تیری تخلیق کا منہ دیکھنے والا ہوگا !! 


آ کسی روز مرے دل کا مکیں بن کے دیکھ

عین ممکن ہے ترے دل میں اجالا ہوگا !!


معاذ فرہادؔ

منگل، 15 فروری، 2022

ایک میں بھی ہوں

ایک میں بھی ہوں کُلہ داروں کے بیچ

میرؔ صاحب کے پرستاروں کے بیچ


روشنی آدھی اِدھر آدھی اُدھر

اِک دیا رکّھا ہے دیواروں کے بیچ


میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا

آئنہ خانے تھے نظّاروں کے بیچ


ہے یقیں مجھ کو کہ سیّارے پہ ہوں

آدمی رہتے ہیں سیّاروں کہ بیچ


کھا گیا انسان کو آشوبِ معاش

آگئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ


میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر

اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ


اپنی ویرانی کے گوھر رولتا

رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ


کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے

گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ


اہلِ دل کے درمیا ں تھے میؔر تم

اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ


آنکھ والے کو نظر آئے علیمؔ

اِک محمد ؐمصطفےٰ ساروں کے بیج ؔ

عبید اللہ علیم 

عبید اللہ علیم غزل

ویران سرائے کا دیا ہے
جو کون و مکاں میں جل رہا ہے

یہ کیسی بچھڑنے کی سزا ہے
آئینے میں چہرہ رکھ گیا ہے

خورشید مثال شخص کل شام
مٹی کے سپرد کر دیا ہے

تم مر گئے حوصلہ تمھارا
زندہ ہوں یہ میرا  حوصلہ ہے

اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

میں کون سا خواب دیکھتا ہوں
یہ کون سے ملک کی فضا ہے

وہ کون سا ہاتھ ہے کہ جس نے
مجھ آگ کو خاک سے لکھا ہے

رکّھا تھا خلا ء میں پاؤں میں نے
رستے میں ستارہ آگیا ہے

شاید کہ خدا میں اور مجھ میں
اِک جست کا اور فاصلہ ہے

گردش میں ہیں کتنی کائناتیں
بچہ مرا پاؤں چل رہا ہے


عبید اللہ علیم

مادرِ ملّت


 

عزیز بھٹی شہید


 

خواجہ میر درد

ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا 


پر اسے آہ کچھ اثر نہ کیا 


سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما 


اس طرف کو کبھو گزر نہ کیا 


کیوں بھویں تانتے ہو بندہ نواز 


سینہ کس وقت میں سپر نہ کیا 


کتنے بندوں کو جان سے کھویا 


کچھ خدا کا بھی تو نے ڈر نہ کیا 


دیکھنے کو رہے ترستے ہم 


نہ کیا رحم تو نے پر نہ کیا 


آپ سے ہم گزر گئے کب کے 


کیا ہے ظاہر میں گو سفر نہ کیا 


کون سا دل ہے وہ کہ جس میں آہ 


خانہ آباد تو نے گھر نہ کیا 


تجھ سے ظالم کے سامنے آیا 


جان کا میں نے کچھ خطر نہ کیا 


سب کے جوہر نظر میں آئے دردؔ 


بے ہنر تو نے کچھ ہنر نہ کیا  

میرے وطن


 

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے


 

غزل ساغر صدیقی


 

میں اتفات یار کا


 

آئے بہار، جائے خزاں، ہو چمن درست


 خواجہ حیدر علی آتش

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا افسانہ کیا


 خواجہ حیدر علی آتش

موت مانگوں تو رہے آرزوئے خواب مجھے


 خواجہ حیدر علی آتش

آئینہ سینہ ء صاحب


 حیدر علی آتش

دہر میں نقشِ وفا

دہر میں نقشِ وفا وجہ تسلی نہ ہوا

ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا

 

نہ ہوئی ہم سے رقم حیرتِ خطِّ رخِ یار

صفحۂ آئینہ جولاں گہِ طوطی نہ ہوا [1]

 

سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا

یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

 

میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں

وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

 

دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی

گر نفَس جادۂ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا

 

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پہ [2] بھی راضی کہ کبھی

گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا

 

کس سے محرومیِ قسمت کی شکایت کیجیے

ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا

 

وسعتِ رحمتِ حق دیکھ کہ بخشا جائے [3] 

مجھ سا کافر کہ جو ممنونِ معاصی نہ ہوا

 

[4] مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالبؔ

ناتوانی سے حریف دمِ عیسی نہ ہوا

مرزا غالب

  

مرزا اسد اللہ خان غالب

شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا

تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا

 

بہ فیضِ بے دلی، نومیدیِ جاوید آساں ہے

کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا

 

ہوائے [1] سیرِ گل، آئینۂ بے مہریِ قاتل

کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ [2] بسمل پسند آیا

 

ہوئی جس کو بہارِ فرصتِ ہستی سے آگاہی

برنگِ لالہ، جامِ بادہ بر محمل پسند آیا

 

سوادِ چشمِ بسمل انتخابِ نقطہ آرائی

خرامِ نازِ بے پروائیِ قاتل پسند آیا

 

[3] روانی ہائے موجِ خونِ بسمل سے ٹپکتا ہے

کہ لطفِ بے تحاشا رفتنِ قاتل پسند آیا

 

اسدؔ ہر جا سخن نے طرحِ باغِ تازہ ڈالی ہے

مجھے رنگِ بہار ایجادیِ بیدلؔ پسند آیا

مرزا اسد اللہ خان غالب

  

دھمکی میں مر

دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا

 

[1] دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا

"عشقِ نبرد پیشہ" طلبگارِ مرد تھا

 

تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا

اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا

 

تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں

مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا

 

دل تا جگر، کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب

اس رہ گزر میں جلوۂ گل، آگے گرد تھا

 

جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی!

دل بھی اگر گیا، تو وُہی دل کا درد تھا

 

احباب چارہ سازیِ وحشت نہ کر سکے

زنداں میں بھی خیال، بیاباں نورد تھا

 

یہ لاشِ بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

مرزا اسد اللہ خان غالب 

1. شارحینِ کلام کے نزدیک وقفہ "جو" کے بجاے "گیا" کے بعد ہے۔ (حامد علی خان) ۔ حامد علی خان کے نسخے میں یہ مصرع یوں ہے: دھمکی میں مر گیا جو، نہ بابِ نرجد تھا (جویریہ مسعود)

 

شوق ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا

شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا

 

شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

 

زخم نے داد نہ دی تنگیِ دل کی یارب

تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا

 

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل

جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

 

دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد

کام یاروں کا بہ قدرِ لب و دنداں نکلا

 

[1] اے نو آموزِ فنا ہمتِ دشوار پسند!

سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا

 

شوخیِ رنگِ حنا خونِ وفا سے کب تک

آخر اے عہد شکن! تو بھی پشیماں نکلا [2]

 

دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالبؔ

آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سُو طوفاں نکلا

 

1. بعض نسخوں میں "اے" کی جگہ "ہے" اور بعض میں اس کی جگہ "تھی" بھی چھپا ہے۔ حسرت موہانی اور طباطبائی کے نسخوں، نیز بعض دوسرے نسخوں میں "اے" ہی چھپا ہے۔ (حامد علی خاں)

2. نسخۂ حمیدیہ میں مزید شعر (اعجاز عبید)

 

دل میرا سوز نہاں سے

دل میرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا

 

دل میرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا

آتش خاموش کی مانند، گویا جل گیا

 

دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں

آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

 

میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا

میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

 

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا

 

دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ، داغوں کی بہار

اِس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا

 

دود میرا سنبلستاں سے کرے ہے ہمسری

بس کہ ذوقِ آتشِ گل سے سراپا جل گیا

 

شمع رویوں کی سر انگشتِ حنائی دیکھ کر

غنچۂ گل پر فشاں، پروانہ آسا، جل گیا

 

خانمانِ عاشقاں دکانِ آتش باز ہے

شعلہ رو جب ہو گئے گرمِ تماشا، جل گیا [1]

 

تا کجا افسوسِ گرمی ہائے صحبت، اے خیال

دل بسوزِ آتشِ داغِ تمنّا جل گیا [2]

 

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو، غالبؔ! کہ دل

دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا

 

1. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: "شعلہ رویاں جب ہوئے گرمِ تماشا جل گیا" (جویریہ مسعود)

2. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: دل ز آتش خیزیِ داغِ تمنا جل گیا

 

سراپا رہن عشق و ناگزیر


 

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی


 

سلام

سلام

 

سلام اسے کہ اگر بادشہ کہیں اُس کو

تو پھر کہیں کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو

 

نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے

کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو

 

خدا کی راہ میں ہے شاہی و خسروی کیسی؟

کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

 

خدا کا بندہ، خداوند گار بندوں کا

اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو؟

 

فروغِ جوہرِ ایماں، حسین ابنِ علی

کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اُس کو

 

کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی

اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو

 

مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی

ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو

 

وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل

شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو

 

عدو کی سمعِ رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات

کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو

 

بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند

بقدرِ فہم ہے گر کیمیا کہیں اُس کو

 

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک

کہ لوگ جوہرِ [1] تیغِ قضا کہیں اُس کو

 

ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے

اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو

 

ہمارا منہ ہے کہ دیں اس کے حسنِ صبر کی داد

مگر نبی و علی مرحبا کہیں اُس کو

 

زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں

پس از حسینِ علی پیشوا کہیں اُس کو

 

وہ ریگِ لقمۂ [2] وادی میں خامہ فرسا ہے

کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو

 

امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد

پیادہ لے چلیں اور ناسزا کہیں اُس کو

 

یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں

علی سے آگے لڑے اور خطا کہیں اُس کو

 

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ

بُرا نہ مانیے گر ہم بُرا کہیں اُس کو

 

علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین

کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟

 

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے

رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟

 

بھرا ہے غالبؔ دِل خستہ کے کلام میں درد

غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو

 مرزا اسد اللہ خان غالب


1. نسخۂ مہر میں " کہ ایک جوہر" (جویریہ مسعود)

2. نسخۂ مہر میں "تفتہ" (جویریہ مسعود)

 

ہاں اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو

ہاں! اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو

ہاں! اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو

اے دجلۂ خوں! چشمِ ملائک سے رواں ہو

اے زمزمۂ قُم! لبِ عیسیٰ پہ فغاں ہو

اے ماتمیانِ شہِ مظلوم! کہاں ہو

بگڑی ہے بہت بات، بنائے نہیں بنتی

اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی

 

تابِ سخن و طاقتِ غوغا نہیں ہم کو

ماتم میں شہِ دیں کے ہیں، سودا نہیں ہم کو

گھر پھونکنے میں اپنے، مُحابا نہیں ہم کو

گر چرخ بھی جل جائے تو پروا نہیں ہم کو

یہ خرگۂ نُہ پایا جو مدّت سے بَپا [1] ہے

کیا خیمۂ شبّیر سے رتبے میں سِوا ہے؟

 

کچھ اور ہی عالم نظر آتا ہے جہاں کا

کچھ اور ہی نقشہ ہے دل و چشم و زباں کا

کیسا فلک! اور مہرِ جہاں تاب کہاں کا!

ہو گا دلِ بےتاب کسی سوختہ جاں کا

اب صاعقہ و مہر میں کچھ فرق نہیں ہے [2]

گِرتا نہیں اس روُ سے کہو برق نہیں ہے

مرزا غالب 

1. نسخۂ مہر میں " بہ جا"(جویریہ مسعود)

2. نسخۂ مہر میں یہ مصرع اس طرح درج ہے:

اب مہر میں اور برق میں کچھ فرق نہیں ہے

(جویریہ مسعود)

 

تضمین بر غزل بہادر شاہ ظفر

تضمین بر غزل بہادر شاہ ظفر

 

گھستے گھستے پاؤں کی زنجیر آدھی رہ گئی

مر گئے پر قبر کی تعمیر آدھی رہ گئی

سب ہی پڑھتا کاش، کیوں تکبیر آدھی رہ گئی

"کھنچ کے، قاتل! جب تری شمشیر آدھی رہ گئی

غم سے جانِ عاشقِ دل گیر آدھی رہ گئی"

 

بیٹھ رہتا لے کے چشمِ پُر نم اس کے روبروُ

کیوں کہا تو نے کہ کہہ دل کا غم اس کے روبرو

بات کرنے میں نکلتا ہے دم اس کے روبرو

"کہہ سکے ساری حقیقت کب ہم اس کے روبرو

ہم نشیں! آدھی ہوئی تقریر، آدھی رہ گئی"

 

تو نے دیکھا! مجھ پہ کیسی بن گئی، اے رازدار!

خواب و بیداری پہ کب ہے آدمی کو اختیار

مثلِ زخم آنکھوں کو سی دیتا، جو ہوتا ہوشیار

"کھینچتا تھا رات کو میں خواب میں تصویرِ یار

جاگ اٹھا جو، کھینچنی تصویر آدھی رہ گئی"

 

غم نے جب گھیرا، تو چاہا ہم نے یوں، اے دل نواز!

مستیِ چشمِ سیہ سے چل کے ہوویں چارہ ساز

توُ صدائے پا سے جاگا تھا، جو محوِ خوابِ ناز

"دیکھتے ہی اے ستم گر! تیری چشمِ نیم باز

کی تھی پوری ہم نے جو تدبیر، آدھی رہ گئی"

 

اس بتِ مغرور کو کیا ہو کسی پر التفات

جس کے حسنِ روز افزوں کی یہ اک ادنیٰ ہے بات

ماہِ نو نکلے پہ گزری ہوں گی راتیں پان سات

"اس رُخِ روشن کے آگے ماہِ یک ہفتہ کی رات

تابشِ خورشیدِ پُر تنویر آدھی رہ گئی"

 

تا مجھے پہنچائے کاہش، بختِ بد ہے گھات میں

ہاں فراوانی! اگر کچھ ہے، تو ہے آفات میں

جُز غمِ داغ و الم، گھاٹا ہے ہر اک بات میں

"کم نصیبی اس کو کہتے ہیں کہ میرے ہات میں

آتے ہی خاصیّتِ اکسیر آدھی رہ گئی"

 

سب سے یہ گوشہ کنارے ہے، گلے لگ جا مرے

آدمی کو کیا پکارے ہے، گلے لگ جا مرے

سر سے گر چادر اتارے ہے، گلے لگ جا مرے

"مانگ کیا بیٹھا سنوارے ہے، گلے لگ جا مرے

وصل کی شب، اے بتِ بے پیر آدھی رہ گئی"

 

میں یہ کیا جانوں کہ وہ کس واسطے ہوں پھِر گئے

پھر نصیب اپنا، انھیں جاتے سنا، جوں پھر گئے

دیکھنا قسمت وہ آئے، اور پھر یوں پھِر گئے

"آ کے آدھی دور، میرے گھر سے وہ کیوں پھِر گئے

کیا کشش میں دل کی ان تاثیر آدھی رہ گئی"

 

ناگہاں یاد آ گئی ہے مجھ کو، یا رب! کب کی بات

کچھ نہیں کہتا کسی سے، سن رہا ہوں سب کی بات

کس لیے تجھ سے چھپاؤں، ہاں! وہ پرسوں شب کی بات

"نامہ بر جلدی میں تیری وہ جو تھی مطلب کی بات

خط میں آدھی ہو سکی، تحریر آدھی رہ گئی"

 

ہو تجلّی برق کی صورت میں، ہے یہ بھی غضب

پانچ چھ گھنٹے تو ہوتی فرصتِ عیش و طرب

شام سے آتے تو کیا اچھی گزرتی رات سب

"پاس میرے وہ جو آئے بھی، تو بعد از نصف شب

نکلی آدھی حسرت، اے تقدیر! آدھی رہ گئی"

 

تم جو فرماتے ہو، دیکھ اے غالبؔ آشفتہ سر

ہم نہ تجھ کو منع کرتے تھے، گیا کیوں اُس کے گھر؟

جان کی پاؤں اماں، باتیں یہ سب سچ ہیں مگر

"دل نے کی ساری خرابی، لے گیا مجھ کو ظفر

واں کے جانے میں مری توقیر آدھی رہ گئی"

مرزا غالب

 

ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی

ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی

 

ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی

لے کے دل سر رشتۂ آزادگی

 

خود بخود کچھ ہم سے کَنیانے لگا

اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا

 

میں کہا، اے دل، ہوائے دلبراں!

بس کہ تیرے حق میں رکھتی ہے زیاں

 

بیچ میں ان کے نہ آنا زینہار

یہ نہیں ہیں گے کِسے کے یارِ غار

 

گورے پنڈے پر نہ کر ان کے نظر

کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر

 

اب تو مِل جائے گی ان سے تیری گانٹھ

لیکن آخر کو پڑے گی ایسی سانٹھ [1]

 

سخت مشکل ہو گا سلجھانا تجھے

قہر ہے، دل ان میں الجھانا تجھے

 

یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے

بھول مت اس پر اُڑاتے ہیں تجھے

 

ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں

مفت میں ناحق کٹا دیں گے کہیں

 

دل نے سن کر۔ کانپ کر، کھا پیچ و تاب

غوطے میں جا کر، دیا کٹ کر جواب

 

رشتۂ در گردنم افگندہ دوست

می بُرد ہر جا کہ خاطر خواہِ اوست

مرزا غالب 

1. نسخۂ مہر میں یہ شعر اس طرح درج ہے:

اب تو مِل جائے گی ان سے تیری سانٹھ

لیکن آخر کو پڑے گی ایسی گانٹھ

(جویریہ مسعود)

 

مثنوی در صفتِ انبہ

مثنوی در صفتِ انبہ

 

ہاں، دلِ درد مندِ زمزمہ ساز

کیوں نہ کھولے درِ خزینۂ راز

 

خامے کا صفحے پر رواں ہونا

شاخِ گل کا ہے گلفشاں ہونا

 

مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے؟

نکتہ ہائے خرد فزا لکھیے!

 

بارے، آموں کا کچھ بیاں ہو جائے

خامہ نخلِ رطب فشاں ہو جائے

 

آم کا کون مردِ میدان ہے

ثمر و شاخ گوئے و چوگاں ہے

 

تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں

آئے، یہ گوئے اور یہ میداں

 

آم کے آگے پیش جاوے [1] خاک

پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاک

 

نہ چلا جب کسی طرح مقدور

بادۂ ناب بن گیا انگور

 

یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے

شرم سے پانی پانی ہونا ہے

 

مجھ سے پوچھو، تمہیں خبر کیا ہے!

آم کے آگے نیشکر کیا ہے!

 

نہ گل اس میں نہ شاخ و برگ، نہ بار [2]

جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار [3]

 

اور دوڑائیے قیاس کہاں

جانِ شیریں میں یہ مٹھاس کہاں

 

جان میں ہوتی گر یہ شیرینی

کوہکن باوجودِ غمگینی

 

جان دینے میں اس کو یکتا جان

پَر وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان

 

نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر

کہ دوا خانۂ ازل میں، مگر

 

آتشِ گل پہ قند کا ہے قوام

شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام

 

یا یہ ہو گا، کہ فرط رافت سے

باغبانوں نے باغِ جنت سے

 

انگبیں کے، بہ حکم رب الناس

بھر کے بھیجے ہیں سربمہر گلاس

 

یا لگا کر خضر نے شاخِ نبات

مدتوں تک دیا ہے آبِ حیات

 

تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل

ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخل

 

تھا ترنجِ زر ایک خسرو پاس

رنگ کا زرد پر کہاں بو باس

 

آم کو دیکھتا اگر اک بار

پھینک دیتا طلائے دست افشار

 

رونقِ کارگاہِ برگ و نوا

نازشِ دودمانِ آب و ہوا

 

رہروِ راہِ خلد کا توشہ

طوبیٰ و سِدرہ کا جگر گوشہ

 

صاحبِ شاخ و برگ [4] و بار ہے آم

ناز پروردۂ بہار ہے آم

 

خاص وہ آم جو نہ ارزاں ہو

نو برِ نخلِ باغِ سلطاں ہو

 

وہ کہ ہے والیِ ولایتِ عہد

عدل سے اس کے ہے حمایتِ عہد

 

فخرِ دیں عزِ شان و جاہِ جلال [5]

زینتِ طینت و جمالِ کمال

 

کار فرمائے دین و دولت و بخت

چہرہ آرائے تاج و مسند و تخت

 

سایہ اُس کا ہما کا سایہ ہے

خلق پر وہ خدا کا سایہ ہے

 

اے مفیضِ وجودِ سایہ و نور!

جب تلک ہے نمودِ سایہ و نور

 

اِس خداوندِ بندہ پرور کو

وارثِ گنج و تخت و افسر کو

 

شاد و دلشاد و شادماں رکھیو

اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو!

مرزا اسد اللہ خان غالب

 

1. نسخۂ مہر میں "جائے" (جویریہ مسعود)

2. نسخۂ آسی میں "نہ شاخ و برگ و بار (جویریہ مسعود)

3. جب خزاں ہو تب آئے اس کی بہار (نسخۂ مہر)

4. نسخۂ مہر میں " شاخِ برگ و بار" (جویریہ مسعود)

5. نسخۂ مہر میں "عز جاہ و شانِ جلال" چھپا ہے۔ اس سے کوئی خاص معنوی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ (حامد علی خان)

 

عشق سے طبیعت نے

 عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

 

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا

 

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل

خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

 

شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا

آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

 

فکرِ نالہ میں گویا، حلقہ ہوں زِ سر تا پا

عضو عضو جوں زنجیر، یک دلِ صدا پایا

 

حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی

ہم نے بار ہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا

 

شب نظارہ پرور تھا خواب میں خرام [1] اس کا

صبح موجۂ گل کو نقشِ [2] بوریا پایا

 

جس قدر جگر خوں ہو، کوچہ دادنِ گل [3] ہے

زخمِ تیغِ قاتل کو طُرفہ دل کشا پایا

 

ہے نگیں کی پا داری نامِ صاحبِ خانہ

ہم سے تیرے کوچے نے نقشِ مدّعا پایا

 

دوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم

آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

 

نَے اسدؔ جفا سائل، نَے ستم [4] جنوں مائل

تجھ کو جس قدر ڈھونڈا الفت آزما پایا

 

1. نسخۂ حمیدیہ میں "خیال" بجائے "خرام" (جویریہ مسعود)

2. نسخۂ حمیدیہ میں "وقف" بجائے "نقش" (جویریہ مسعود)

3. نسخۂ حمیدیہ میں "دل" بجائے "گل" (جویریہ مسعود)

4. نسخۂ حمیدیہ میں "سمِّ جنوں " بجائے "ستم جنوں" (جویریہ مسعود)


کہتے ہو نہ دیں گے ہم


 مرزا اسد اللہ خان غالب

مرزا غالب

 عالم جہاں بعرضِ بساطِ وجود تھا

 

عالم جہاں بعرضِ بساطِ وجود تھا

جوں صبح، چاکِ جَیب مجھے تار و پود تھا

 

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

صحرا، مگر، بہ تنگیِ چشمِ حُسود [1] تھا

 

بازی خورِ فریب ہے اہلِ نظر کا ذوق

ہنگامہ گرم حیرتِ بود و نمود تھا

 

عالم طلسمِ شہرِ خموشاں ہے سر بسر

یا میں غریبِ کشورِ گفت و شنود تھا

 

آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست

ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

 

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ

جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا

 

لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز

لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا

 

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی

میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

 

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسدؔ

سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا

 

مرزا غالب


دنیا کے طرزِ تکلم میں جو

دنیا کے طرزِ تکلم میں جو وحشت پائی

دنیا ہی چھوڑ دی اور فرطِ مسرت پائی


محفلِ ناز میں الفت کی ضرورت پائی

راحتِ جاں نہ تھی منہ دیکھے کی الفت پائی


خوش نصیبی ہے مری جان سلامت پائی

زندگی پائی جو الفت میں غنیمت پائی


چین تھا دل کو مرے دوستوں کی محفل میں

دوست جو روٹھ گئے تو شبِ فرقت پائی


دربدر پھرتے رہے دنیا کی چاہت میں ہم

دنیا بھی کھو دی نہ فوق البشریت پائی


گِھر گیا دین و محبت کی خلِش میں عاکف

نہ کوئی دین ملا اور نہ محبت پائی

ارسلان احمد عاکف 

ہم جانتے تو ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں

ہم جانتے تو ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں

انکی نظر میں محترم کچھ بھی نہیں


میری نظر میں آبِ غم کچھ بھی نہیں

یہ آپ کا ظلم و ستم کچھ بھی نہیں


بے چین ہیں اب ساحلِ دریا سبھی

مت ڈھونڈ تو آبِ ندم کچھ بھی نہیں


تیری محبت میں یہ پتھر جیسا دل

کثرت سے ٹوٹا اور غم کچھ بھی نہیں


نادان ہوں کرتا ہوں خود ہی سے جرح

عاکف ہے کیا ؟ کوئی بھرم؟ کچھ بھی نہیں

ارسلان احمد عاکف 

کسی کا بھی اتنا مرتبۂ کمال نہ ہو

کسی کا بھی اتنا مرتبۂ کمال نہ ہو

کہ اس کے بغیر جینا کبھی محال نہ ہو


ہزاروں ستم ہوں تو یہ نہیں ہو سکتا جناب

کہ محفلِ غم میں نغمۂ انفصال نہ ہو


بس ایک وہی خفا ہے تو کوئی بات نہیں

زمانہ بھی روٹھ جائے کوئی ملال نہ ہو


بے فہم سخن طراز یہی تو چاہتے ہیں 

کہ بزمِ سخن میں متحد الخیال نہ ہو


میں لاکھ بے احتیاط سہی مگر اے خدا

کسی کا وجود عشق میں پائمال نہ ہو

ارسلان احمد عاکف 

بڑھا دے مول ان آنکھوں کا بنجارے

بھری محفل میں سب اپنے تھے نظروں میں

کوئی اپنا نہ پایا میں نے اپنوں میں


عزیزِ آشنا بھی ہم کو پیارا ہے

ارے اب تو وہ بھی آتا ہے خوابوں میں


اے آنے والے آؤ آپ کی خاطر

سجائے بیٹھے ہیں ہم پلکیں راہوں میں


ہمیں منظور ہے بس اتنا کہنا تھا

ختم شد قصۂ الفت دو لفظوں میں


وہ اسکا دستخط کرتے ہوئے ہائے

زباں پر قفل تھا لرزش تھی ہاتھوں میں


نگاہیں تو اٹھاتے دیکھتے ہم بھی 

کہ کتنا درد ہے تیری نگاہوں میں


ہوئی رخصت جو سجنی سرخ جوڑے میں

جلے ہم چشم تنہا کالی راتوں میں


یہ دل روتا ہے سوکھے ہیں مگر روزن

کہ اب شدت کہاں ہے میرے اشکوں میں


حقیقت میں نہیں ملتی کبھی چاہت

بسایا ہے اسے بس اپنے خوابوں میں


بڑھا دے مول ان آنکھوں کا بنجارے

ہزاروں سپنے بستے ہیں ان آنکھوں میں


نہ چھیڑو تم محبت کی کہانی کو

بہت غم ہیں محبت کے بکھیڑوں میں


تری بستی گیا تھا آج بھی عاکف

ترے پیچھے اداسی سی ہے گلیوں میں

ارسلان احمد عاکف 

کرتا جنوں جہاں میں

 کرتا جنوں جہاں میں بے نام و ننگ آیا

اک جمع لڑکوں کا بھی لے لے کے سنگ آیا

 

شب شمع کی بھی جھپکی مجلس میں لگ گئی تھی

سرگرم شوق مردن جس دم پتنگ آیا

 

فتنے فساد اٹھیں گے گھر گھر میں خون ہوں گے

گر شہر میں خراماں وہ خانہ جنگ آیا

 

ہر سر نہیں ہے شایاں شور قلندری کا

گو شیخ شہر باندھے زنجیر و زنگ آیا

 

چسپاں ہے اس بدن سے پیراہن حریری

اتنی بھی تنگ پوشی جی اب تو تنگ آیا

 

باتیں ہماری ساری بے ڈھنگیاں ہیں وے ہی

بوڑھے ہوئے پہ ہم کو اب تک نہ ڈھنگ آیا

 

بشرے کی اپنے رونق اے میرؔ عارضی ہے

جب دل کو خوں کیا تو چہرے پہ رنگ آیا

 

میر تقی میر

میرا ہی مقلد عمل تھا


 میر تقی میر

میرے مالک نے مرے


 میر تقی میر

غزل میر تقی

دین و دل کے غم کو آساں ناتواں میں لے گیا

یا محبت کہہ کے یہ بار گراں میں لے گیا

 

خاک و خوں میں لوٹ کر رہ جانے ہی کا لطف ہے

جان کو کیا جو سلامت نیم جاں میں لے گیا

 

سرگذشت عشق کی تہ کو نہ پہنچا یاں کوئی

گرچہ پیش دوستاں یہ داستاں میں لے گیا

 

عرصۂ دشت قیامت باغ ہو جائے گا سب

اس طرح سے جو یہ چشم خوں فشاں میں لے گیا

 

ذکر دل جانے کا وہ پر کینہ سن کہنے لگا

یہ سناتے ہو کسے کیا مہرباں میں لے گیا

 

یک جہاں مہر و وفا کی جنس تھی میرے کنے

لیکن اس کو پھیر ہی لایا جہاں میں لے گیا

 

ریختہ کاہے کو تھا اس رتبۂ اعلیٰ میں میرؔ

جو زمیں نکلی اسے تا آسماں میں لے گیا

میر تقی میر