منگل، 15 فروری، 2022

عبید اللہ علیم غزل

ویران سرائے کا دیا ہے
جو کون و مکاں میں جل رہا ہے

یہ کیسی بچھڑنے کی سزا ہے
آئینے میں چہرہ رکھ گیا ہے

خورشید مثال شخص کل شام
مٹی کے سپرد کر دیا ہے

تم مر گئے حوصلہ تمھارا
زندہ ہوں یہ میرا  حوصلہ ہے

اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

میں کون سا خواب دیکھتا ہوں
یہ کون سے ملک کی فضا ہے

وہ کون سا ہاتھ ہے کہ جس نے
مجھ آگ کو خاک سے لکھا ہے

رکّھا تھا خلا ء میں پاؤں میں نے
رستے میں ستارہ آگیا ہے

شاید کہ خدا میں اور مجھ میں
اِک جست کا اور فاصلہ ہے

گردش میں ہیں کتنی کائناتیں
بچہ مرا پاؤں چل رہا ہے


عبید اللہ علیم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں