جمعرات، 17 فروری، 2022

ایک ایسی بھی ہوا آئے گی

 

ایک ایسی بھی ہوا آئے گی

جو ہر اِک زخم کو بھر جائے گی

یہ کنارے سے لپٹتی ہوئی موج

کبھی طوفاں بھی اٹھا لائے گی

پھول میں ہو کہ ہوا میں خوشبو

نور ہے نور ہی برسائے گی

اور یہ عشق و ہوس کی دنیا

تشنگی کے سوا کیا پائے گی

پھول بھی شاخ سے گر جائیں گے

شاخ بھی دھوپ سے مرجھائے گی

ہے سمٹتے ہوئے سائے کی صدا

اُٹھ یہ دیوار بھی گر جائے گی

کوئی احساس اگر ہے تو کہو

بات لفظوں سے نہ بن پائے گی

1964ء

عبید اللہ علیم ؔ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں