بدھ، 16 فروری، 2022

کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا

کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا

کس کی تلاش ہے تمہیں اور کون کھو گیا


آنکھوں میں روشنی بھی ہے ویرانیاں بھی ہیں

اِک چاند ساتھ ساتھ ہے اِک چاند گہہ گیا


تم ہمسفر ہوئے تو ہوئی زندگی عزیز

مجھ میں تو زندگی کا کوئی حوصلہ نہ تھا


تم ہی کہو کہ ہوبھی سکے گا مرا علاج

اگلی محبتوں کے مرے زخم آشنا


جھانکا ہے میں نے خلوت جاں میں نگارِ جاں

کوئی نہیں ہے کوئی نہیں ہے ترے سوا


وہ اور تھا کوئی جسے دیکھا ہے بزم میں

گر مجھ کو ڈھونڈنا ہے مری خلوتوں میں آ


اے میرے خواب آ مری آنکھوں کو رنگ دے

اے مری روشنی تو مجھے راستا دکھا


اب آبھی جا کہ صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جاؤں

اے میرے آفتاب بہت تیز ہے ہوا


یارب عطا ہو زخم کوئی شعر آفریں

اِ ک عمر ہو گئی کہ مرا دل نہیں دکھا


وہ دور آگیا ہے کہ اب صاحبان درد

جو خواب دیکھتے ہیں وہی خواب نارسا


دامن بنے تو رنگ ہوا دسترس سے دور

موجِ ہوا ہوئے تو ہے خوشبو گزیر پا


لکّھیں بھی کیا کہ اب کوئی احوالِ دل نہیں

چینخیں بھی کیا کہ اب کوئی سنتا نہیں صدا


آنکھوں میں کچھ نہیں ہے بجز خاکِ رہ گزر

سینے میں کچھ نہیں ہے بجز نالہ و نوا


پہچان لو ہمیں کہ تمہاری صدا ہیں ہم

سن لو کہ پھر نہ آئیں گے ہم سے غزل سرا


1970ء


عبید اللہ علیم ؔ

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں