بھری محفل میں سب اپنے تھے نظروں میں
کوئی اپنا نہ پایا میں نے اپنوں میں
عزیزِ آشنا بھی ہم کو پیارا ہے
ارے اب تو وہ بھی آتا ہے خوابوں میں
اے آنے والے آؤ آپ کی خاطر
سجائے بیٹھے ہیں ہم پلکیں راہوں میں
ہمیں منظور ہے بس اتنا کہنا تھا
ختم شد قصۂ الفت دو لفظوں میں
وہ اسکا دستخط کرتے ہوئے ہائے
زباں پر قفل تھا لرزش تھی ہاتھوں میں
نگاہیں تو اٹھاتے دیکھتے ہم بھی
کہ کتنا درد ہے تیری نگاہوں میں
ہوئی رخصت جو سجنی سرخ جوڑے میں
جلے ہم چشم تنہا کالی راتوں میں
یہ دل روتا ہے سوکھے ہیں مگر روزن
کہ اب شدت کہاں ہے میرے اشکوں میں
حقیقت میں نہیں ملتی کبھی چاہت
بسایا ہے اسے بس اپنے خوابوں میں
بڑھا دے مول ان آنکھوں کا بنجارے
ہزاروں سپنے بستے ہیں ان آنکھوں میں
نہ چھیڑو تم محبت کی کہانی کو
بہت غم ہیں محبت کے بکھیڑوں میں
تری بستی گیا تھا آج بھی عاکف
ترے پیچھے اداسی سی ہے گلیوں میں
ارسلان احمد عاکف
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں