منگل، 15 فروری، 2022

ہم جانتے تو ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں

ہم جانتے تو ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں

انکی نظر میں محترم کچھ بھی نہیں


میری نظر میں آبِ غم کچھ بھی نہیں

یہ آپ کا ظلم و ستم کچھ بھی نہیں


بے چین ہیں اب ساحلِ دریا سبھی

مت ڈھونڈ تو آبِ ندم کچھ بھی نہیں


تیری محبت میں یہ پتھر جیسا دل

کثرت سے ٹوٹا اور غم کچھ بھی نہیں


نادان ہوں کرتا ہوں خود ہی سے جرح

عاکف ہے کیا ؟ کوئی بھرم؟ کچھ بھی نہیں

ارسلان احمد عاکف 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں