ہم جانتے تو ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں
انکی نظر میں محترم کچھ بھی نہیں
میری نظر میں آبِ غم کچھ بھی نہیں
یہ آپ کا ظلم و ستم کچھ بھی نہیں
بے چین ہیں اب ساحلِ دریا سبھی
مت ڈھونڈ تو آبِ ندم کچھ بھی نہیں
تیری محبت میں یہ پتھر جیسا دل
کثرت سے ٹوٹا اور غم کچھ بھی نہیں
نادان ہوں کرتا ہوں خود ہی سے جرح
عاکف ہے کیا ؟ کوئی بھرم؟ کچھ بھی نہیں
ارسلان احمد عاکف
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں