ہفتہ، 11 اپریل، 2020
جمعرات، 9 اپریل، 2020
بدھ، 8 اپریل، 2020
چراغ جلاتے چلو قسط۔ ,5,6,7,8
[4/8, 8:58 AM] Nawab Rana Arsalan: ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 5
رات کو جب سونے کے لیے لیٹتے ہیں تو ازرق ہنس سے کہتا ہے کہ میں کل واپس اپنے گھر کراچی چلا جاؤں گا۔
ہنس راج: کیوں ! کچھ دن اور رہ لو۔
ازرق: نہیں ! اب بہت گھوم لیا اب واپس جانا ہے۔
ہنس راج: ٹھیک ہے جیسے جناب کی مرضی، ہنس نے اداسی سے کہا
ازرق: اداس مت ہونا تم بھی کبھی آنا کراچی اور مجھے بھی خدمت کا موقع دینا
ہنس راج: ہاں ضرور
ازرق: اب اپنی پیاری سی آواز سے ایک گانا سنا دو
ہنس راج لتا جی کا گانا سناتا ہے۔
"جس کا جتنا ہو آنچل یہاں پہ
اسکو سوغات اتنی ملے گی
گل جیون میں گر نہ ملیں تو
کانٹوں سے بھی نبھانا پڑے گا
زندگی پیار کا گیت ہے
اسے ہر دل کو گانا پڑے گا
پھر دونوں سو جاتے ہیں
صبح ہوتے ہی ناشتہ کر کہ ہنس ازرق کو بس اسٹاپ پر چھوڑنے جاتا ہے بس کے انتظار میں دونوں اسٹاپ پر کھڑے ہوئے تھے، دونوں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے، شائید ازرق کا دل نہیں کر رہا تھا جانے کو ہنس بھی اسے زور لگا رہا تھا کہ کچھ دن رک جاؤ لیکن ازرق رکنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
ہنس راج: رک جاتے تو اچھا تھا
ازرق: نہیں بہت دن یہاں رہا ہوں اب پھر کبھی آؤں گا
ہنس راج: ٹھیک ہے رابطہ میں رہنا
ازرق: انشالله
اتنی دیر میں بس آجاتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر الودہ کہتے ہیں اور پھر ازرق بس میں چڑھ جاتا ہے اور بس کے دروازے میں کھڑا ہو کر کافی دور تک ہنس راج کو دیکھتا رہتا ہے، ہنس بھی وہیں کھڑا رہتا ہے، جب بس ہنس کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے، ہنس وہاں سے اداس چہرا لے کر واپس گھر لوٹ جاتا ہے۔
✴✴✴✴✴✴✴
تم کیا کھاؤ گی؟۔ سمرن نے جیا سے پوچھا
جیا: میں تو بس جوس پیوں گی
سمرن: صرف جوس لگتا ہے ڈائٹ پر ہو
جیا: نہیں سیمی ایسی بات نہیں ہے
دونوں میڈیکل کالج کی کینٹین میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں، دونوں کا کالیج کا آخری سال تھا سمرن کے گھنگریالے بال اور گول خوبصورت چہرا تھا، جیا کے سنہرے اور سیدھے بال خوبصورت چہرا پر مسکان جیسے کوئی پری ہو۔
سمرن: وہ دیکھو لڑکا کیسے گھور گھور کر دیکھ رہا ہے
جیا : رام کرے یہ اندھا ہو جائے، جیا نے اکھڑے ہوئے لہجے سے کہا
سمرن: ایسا تو نہیں کہتے
جیا: تو کیا کروں اسکے گھر ماں بہن نہیں ہے کیا
سمرن: چلو ہم چلتے ہیں کلاس کا وقت ہو چکا ہے۔
دونوں کلاس میں چلے گئیں اور چھٹی کے بعد دونوں کا ہوسٹل میں ایک ہی روم تھا دونوں اپنے روم میں چلے گئیں، سیمی نے کمرے میں جاتے ہی اپنی کتابیں بے پروائی سے ایک طرف رکھ دیں۔
جیا: سیمی یہ کیا عادت ہے تمہاری، اپنی کتابیں روزانہ اتنی بے پروائی سے کیوں رکھتی ہو؟ علم ہے اس کی عزت کرو، جیا نے غسے سے کہا
سمرن: او اچھا میڈم جی، سیمی نے مسکرا کر جواب دیا
جیا: علم کو اس طرح نہیں پھینکا جاتا بلکہ ادب کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اور یہ حالت دیکھو کمرے کی کیا بنائی ہوئی ہے، جیا نے الجھے ہوئے انداز میں کہا
سمرن: او ۔ کے میری ماں میں ٹھیک کر دیتی ہوں، سیمی نے مسکرا کر کہا، اور پھر مبائل فون میں مصروف ہو گئی
جیا: تمہیں مبائل سے فرصت ملے تو تم کچھ کرو، جیا نے بے حد غسے سے کہا
سمرن: یار آج تمہیں اتنا غسہ کس بات کا آ رہا ہے، چلو کھانا کھانے چلتے ہیں بعد میں کمرا ٹھیک کر لیں گے، سیمی نے مسکراتے ہوئے کہا، پھر دونوں کھانا کھانے چلے گئیں اور کھانا کھا کر کچھ وقت بعد واپس آئیں۔
جیا: اب کمرا تم ٹھیک کرو گی یا میں خود کر لوں
سمرن: یار تم کر لو نا مجھے پڑھائی کرنی ہے سیمی نے بہانہ بناتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے! مجھے پتہ ہے کون سی پڑھائی کرتی ہو تم، جیا نے طنزیہ لہجے سے کہا
سمرن ہستی ہوئی پھر سے فون استعمال کرنے لگ گئی، جیا نے کمرے کی ہر چیز ترتیب سے رکھی اور پھر کتاب لے کر پڑھائی میں مصروف ہو گئی۔
جیا پڑھائی میں بہت ہشیار تھی اور ہوسٹل میں فضول کسی لڑکی سے بات نہیں کرتی تھی اور اسکی دو ہی سہیلیاں تھیں سیمی اور انابیہ، انابیہ بھی انہیں کے ساتھ میڈیکل کالج میں پڑھتی تھی
کچھ وقت بعد انابیہ نے باہر سے دروازہ کھٹکٹایہ۔
سمرن: کون ہے؟
انابیہ: میں انابیہ
سمرن نے دروازہ کھولا اور انابیہ کو اندر بلا کر دروازہ بند کر دیا۔
انابیہ : او ہو میڈم جی پڑھ رہی ہیں
سمرن: انہیں پڑھائی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا، سیمی نے مسکراتے ہوئے کہا
جیا: آؤ انابیہ میں پڑھائی بند کر دیتی ہوں، جیا نے مسکرا کر کہا
انابیہ: نہیں میڈم جی آپ تکلف کیوں کر رہی ہیں، انابیہ نے ہنستے ہوئے کہا
جیا: نہیں نہیں میں بس اب کتاب بند کرنے ہی والی تھی، تم سناؤ کیسی ہو؟
ٹھیک ہوں ! انابیہ نے اداسی سے مدھم سی آواز میں کہا۔۔۔
کیا ہوا ہے؟ تمہارا چہرا کیوں لٹکا ہوا ہے؟ جیا نے فکر مندی سے کہا۔۔۔
انابیہ: نہیں بس یہ پڑھائی کی وجہ سے ہے، بہت مشکل ہے یار پڑھائی
جیا: تو پڑھ لیا کرو سارا دن باتیں یا مبائیل ہی استعمال کرتی رہتی ہو، جیا نے طنزیہ لہجے سے سر کو ہلاتے ہوئے کہا۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
[4/8, 8:59 AM] Nawab Rana Arsalan: ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر ۔ 6
لو میڈم ہو گئی شروع لیکچر دینا، سیمی جو ایک طرف مبائیل پر لگی تھی، ایک دم چونک کر بولی، اور پھر تینوں ہنسنے لگ گئیں۔
انابیہ: یار ہمارا کالیج کا آخری سال ہے اس کے بعد پتہ نہیں میں کہا اور تم لوگ کہا، ہم کالیج کے بعد ملا کریں گے نا؟
جیا: ہاں یار کیوں نہیں، یہ دوستی کبھی ختم نہیں ہوگی۔
سیمی: ہاں ہاں جیا دادی اماں بھی بن گئی نہ پھر بھی تمہیں یا مجھے کال کر کے پوچھا کرے گی کہ " میرا فلاں پوتا بہت تنگ کرتا ہے کیا کروں" سمرن نے مسکرا کر مزاحیہ انداز میں کہا
فضول کچھ بھی، جیا نے چڑ کر کہا
کاش کہ یہ دن کبھی ختم نہ ہوں، انابیہ نے دھیمے لہجے سے کہا
ہممم! زندگی کتنی خوبصورت ہے نا ، جیا اتنا کہہ کر سوچ میں پڑ گئی
تم دونوں کیسی سنجیدہ باتیں کر رہی ہو، اب کیا رلاؤ گی کیا۔ سیمی نے مسکرا کر کہا
تینوں نے کافی دیر تک باتیں کی اور پھر انابیہ اپنے کمرے میں چلے گئی۔
رات کو جب سونے کے وقت سیمی اپنے پلنگ پہ لیٹی ہوئی مبائل استعمال کر رہی تھی اور جیا کھڑکی سے باہر آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
کیا دیکھ رہی ہو، سیمی نے جیا سے پوچھا
یہ ستارے کتنے خوبصورت ہیں، جیا نے تاروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
تمہیں آج پتا چلا کہ تارے خوبصورت ہیں، سیمی نے ہنس کر کہا
میں ہر روز ان کو دیکھتی ہوں ہر شب آسمان پہ ان کا میلا لگتا ہو گا، جیا نے فلسفیانہ انداز سے کہا
سیمی: تم چھوڑو! یہ بتاؤ تم شادی کس سے کرو گی؟
جیا: وہ جو سب سے الگ ہوگا
سیمی: کیا مطلب؟
وہ میرے خوابوں کا شہنشاھ ہے اور میں اسکے خوابوں کی ملکہ، جیا نے دھیمی آواز میں کہا
پہیلیاں کیوں بجھوا رہی ہو صاف صاف بتاؤ وہ کون ہے؟ سمرن نے قدرے تجسس سے پوچھا
وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیا ایک لفظ کہہ کر چپ ہو گئی
یار بتا دو! کیا وہ ؟ تمہیں پتا ہے مجھے کتنی بے تابی ہو رہی ہے، سمرن نے ضدی لہجے سے کہا
اسکو میں نہیں جانتی، پر وہ ۔۔۔ وہ جو اپنے لیے نہ جیتا ہو، سب کے لیے جیتا ہو، جس کی سوچ سب سے الگ ہو، جو ہر راہ میں دیے جلاتا ہو تاکہ لوگ آسانی سے گزر سکیں، وہ ہے ۔۔۔۔۔ وہی ہوگا میرے خوابوں کا شہنشاھ، جیا نے آسمان پہ جگمگاتے ہوئے ستاروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
سمرن: ایسا کس دیس سے ڈھونڈ کر لاؤ گی؟
ڈھونڈنے سے تو کچھ بھی مل جاتا ہے، بس ارادہ پکا ہونا چاہیے، جیا نے مسکرا کر مدھم سی آواز میں کہا
سمرن نے اپنا مبائل رکھا اور اٹھ کر جیا کہ پاس آگئی
اور اگر تم اسکے خوابوں کی ملکہ نہ بنیں تو؟ سمرن نے دلچسپی سے پوچھا
تم ایسا کیوں سوچ رہی ہو؟ جیا نے الجھے ہوئے انداز میں کہا
کیوں کہ خواب ہمیشہ خواب ہی رہتے ہیں، کبھی حقیقت نہیں بنتے، سیمی نے سنجیدگی سے جواب دیا
جیا: اچھا چھوڑو! تم بتاؤ تم کس سے شادی کرو گی؟
میں تو اس سے کروں گی جو مجھے سارا دن گھماتا رہے اور بہت ساری شاپنگ کرائے، سیمی نے ہنس کر جواب دیا۔
جیا: چلو اب رات بہت ہو چکی ہے سو جاتے ہیں
او۔ کے ! سمرن نے چہرے پہ شرارتی سی مسکان لاتے ہوئے کہا
دونوں اپنے اپنے پلنگ پہ لیٹ گئیں اور کچھ وقت بعد جیا سو گئی، سمرن رات دیر تک مبائیل استعمال کرتی رہی
صبح اٹھ کر جیا نے کالیج جانے کی تیاری بھی کر لی تھی اور سمرن اب تک سوئی ہوئی تھی۔
اٹھو سیمی کالج جانے کا وقت ہو چکا ہے، جیا نے سمرن کے چہرے سے کمبل اٹھاتے ہوئے کہا۔
کیا مصیبت ہے؟ اٹھ جاتی ہوں ، سمرن نے قدرے الجھے ہوئے لہجے سے کہا
جیا: روز کلاس میں دیر سے جاتی ہو، پڑھ لو ! نہیں تو امتحان میں ناکام ہو جاؤ گی۔
تم جاؤ میں آتی ہوں، سمرن نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا
اور جیا کالیج چلے گئی اور پھر کافی وقت کے بعد سمرن کلاس میں آئی،
سمرن: مے۔۔ آئی۔ کم ۔ان ۔۔ ٹیچر
ٹیچر : یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟
سمرن: ٹیچر وہ۔۔۔۔
ٹیچر: اب بہانے چھوڑو چلو بیٹھو کلاس میں
سمرن جیا کے ساتھ آکر بیٹھ گئی
آ گئی میڈم!! جیا نے طنزیہ انداز سے کہا
یار تم مجھے وقت پر کیوں نہیں اٹھاتی، سمرن نے مسکرا کر کہا
او۔ ہو۔۔ اب سارا قصور میرا ہے۔۔ ہممم۔۔ کتنی دیر تک تمہیں اٹھاتی رہی ہوں، جیا نے الجھ کر جواب دیا
سمرن: اچھا چھوڑو! یہ بتاؤ آج کالیج کے بعد چلیں بازار خریداری کرنے
جیا: نہیں
سمرن: کیوں
جیا: اب کلاس میں ہو پڑھائی پر دھیان دو بعد میں دیکھیں گے
او ۔ کے ۔ سمرن نے مرجھائے ہوئے انداز سے کہا
کالج کے بعد جب دونوں ہوسٹل میں اپنے کمرے میں گئیں، روز کی طرح پھر سے کمرے کی حالت بکھری ہوئی تھی۔
تم کبھی نہیں سدھر سکتی، جیا نے سمرن کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا
سدھر کر کیا کرنا ہے، سمرن نے مسکرا کر کہا
تم میڈیکل کالج میں پڑھتی ہو، تم ڈاکٹر بنو گی؟ جیا نے قدرے اکھڑے ہوئے لہجے سے کہا
سمرن: یار چھوڑو! یہ بتاؤ میرے ساتھ شاپنگ کرنے چلو گی؟
جیا : نہیں
سمرن: کیوں یار چلو نا
جیا: ٹھیک ہے شام کو چلیں گے
سمرن: او۔کے۔ پھر پہلے ساحل سمندر پر چلیں گے بعد میں شاپنگ کریں گے
اتنا وقت نہیں ہے میرے پاس، جیا نے سخت لہجے میں کہا
یا پلیز.... سمرن نے منت کی
ٹھیک ہے۔۔ جیا نے فوراً ہار مانتے ہوئے کہا
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
[4/8, 9:01 AM] Nawab Rana Arsalan: ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 7
دونوں شام کو ساحل سمندر پر چلے گئیں، ساحل سمندر پر بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے، پانی کی لہریں موج میں تھیں، آسمان پہ سفید ہلکہ ہلکہ بادل تھے، لہریں دونوں کے پاؤں کو آ کر چھو رہیں تھی۔
واؤ کتنا مزہ ہے نا یہاں، سمرن نے ساحل پہ پانی کے اندر چلتے ہوئے کہا
ہاں ! جیا نے مدھم سی آواز سے مختصر سا جواب دیا
سمرن: کیا سوچ رہی ہو؟
یہ پانی کی لہریں کتنی مستی میں ہیں نا، شائید بہت خوش ہیں، سیمی زندگی کتنی حسین ہے نا، جیا نے سمرن کو پکارتے ہوئے فلسفیانہ انداز سے کہا۔
ایک تو مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی، سمرن نے مسکرا کر کہا۔
جیا: تم مجھے سمجھ کر کیا کرو گی؟
سمرن: ہاں یہ بات بھی ہے
جیا: چلو اب چلتے ہیں
اتنی جلدی ابھی تو آئے ہیں، سمرن نے الجھے ہوئے لہجے سے کہا
جیا: تو شاپنگ نہیں کرنی کیا؟
سمرن: ہاں تو تھوری دیر بعد چلتے ہیں نا۔
ٹھیک ہے! جیا نے فوراً ہار مانتے ہوئے کہا
پھر دونوں کچھ وقت بعد خریداری کر کے واپس آ جاتی ہیں۔
سمرن: یار میں بہت تھک گئی ہوں
کیا؟ تم صرف شاپنگ کر کے تھک گئی ہو؟ جیا نے حیرانگی سے پوچھا
ہاں ! سمرن نے اپنا فون اٹھاتے ہوئے مختصر سا جواب دیا
چلو ! اب ہوگئی مبائل کی ڈیوٹی شروع، جیا نے مسکرا کر کہا
کچھ دن ایسے ہی گزر جاتے ہیں، پھر دیوالی کا تہوار آ جاتا ہے، دونوں دیوالی منانے اپنے اپنے گھر چلی جاتی ہیں۔
ماما کہاں ہیں آپ؟ جیا نے اپنے گھر پہنچ کر جب سحن میں کسی کو نہیں پایا تو بلند آواز سے کیا۔
مدھو( جیا کی امی) کمرے سے بیتابی سے بھاگ کر آئی اور جیا کو گلے لگا لیا
جیا: کیسی ہیں ماما آپ؟
مدھو: میں ٹھیک ہوں بیٹا تم سناؤ؟
جیا: میں بھی ٹھیک ہوں، پاپا کہاں ہیں؟
مدھو: تمہارے پاپا آتے ہی ہوں گے
اتنی دیر میں اکاش (جیا کا چھوٹا بھائی) سیڑیوں سے اترتے ہوئے زور سے چلایا، او۔۔۔ آپی آئی ہیں۔۔۔ اور بھاگ کر جیا سے ملنے آئے گیا۔
مدھو: چلو تم کمرے میں بیٹھو میں تمہارے لئے پانی لے کر آتی ہوں۔
اکاش اور جیا دونوں کمرے میں چلے گئے اور مدھو بھی پانی لے کر آگئی پھر تینوں میں باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کچھ وقت بعد راجیش (جیا کے پاپا) آئے، جیا جو سوفے پر بیٹھی باتوں میں مصروف تھی پاپا کو دیکھ کر خوشی سے اٹھی اور اپنے پاپا کے گلے لگ گئی، جیا کے پاپا بھی بہت خوش تھے آخر ان کی لاڈلی بیٹی آئی تھی۔
رات کو بارش کا موسم دیکھ کر جیا چھت پر چلے گئی، اندھیری رات تھی، آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا، بادل بہت تیز گرج رہے تھے، بادلوں کی گھن گرج کے ساتھ بجلی بھی چمک رہی تھی، پھر اچانک سے بارش آنا شروع ہو گئی، جیا بارش میں باہیں پھلا کر جھومنے لگ گئی، خوبصورت سنہرے بال بارش کی بوندوں سے بھیگ چکے تھے، اور خود بھی بارش سے بھیگ چکی تھی، خوبصورت رنگت اور چہرے کی مسکان بھیگ کر اور بھی زیادہ دل کش ہو چکی تھی، بارش آستہ آستہ تیز ہو رہی تھی جیا کو بارش میں بھیگنا اچھا لگتا تھا، اور وہ خوشی سے جھوم رہی تھی، اتنی دیر میں پیارے سے لہجے کی آواز جیا کہ کانوں میں پڑتی ہے "جیا بیٹا بیمار پڑ جاؤ گی اب چلو نیچے" جیا مڑ کر دیکھتی ہے، وہ اسکی ماما ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔ اچھا ماما آ۔۔۔۔ آتی ہوں ماما، جیا نے سردی سے کامپتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔کب آؤ گی بیٹا ٹھند لگ جائے گی، مدھو نے قدرے فکر مندی سے کہا۔
جیا جو بارش سے مکمل بھیگ چکی تھی، اپنے کمرے میں آکر کپڑے تبدیل کیے اور پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گئی۔ تیز بارش ابھی بھی تھمی نہیں تھی، جیا کے سنہرے بال ابھی بھی بھیگے تھے وہ ایک کرسی پر بیٹھی بارش کے نظارے دیکھ رہی تھی۔ کچھ وقت کے بعد وہ وہیں پر سامنے رکھے میز پر سر رکھ کر سو جاتی ہے۔
اور صبح جب کھلی کھڑکی سے سورج کی کرنے اس کی آنکھوں پہ پڑتی ہیں تو اس کی آنکھ کھلتی ہے، اور وہ حیرانگی سے دل ہی میں سوچتی ہے کہ "میں رات یہیں پر سو گئی تھی، کتنی عجیب بات ہے مجھے پتہ بھی نہیں چلا"۔
جیا فریش ہو کر جب باہر آتی ہے تو سب دیوالی کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔
جیا اپنے گھر کے سحن میں ایک طرف شری کرشنا مندر میں جا کر پوجا کرتی ہے اور پھر پوجا کے بعد وہ بھی دیوالی کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔
دیوالی ہندو مزہب کا تہوار ہے
دیوالی (جسے دیپاولی اور عید چراغاں بھی کہا جاتا ہے) کا تیوہار روحانی اعتبار سے اندھیرے پر روشنی کی، نادانی پر عقل کی، برائی پر اچھائی کی، اور مایوسی پر امید کی فتح کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
دیوالی کا تیوہار اماوس کی رات کو منایا جاتا ہے۔
یہ تیوہار دھنتیراس سے شروع ہوتا ہے، دوسرے دن ناراکا چتردسی منائی جاتی ہے، تیسرے دن دیوالی، چوتھے دن دیوالی پاڑوا، جو کہ شوہر بیوی کے رشتے کے لیے مخصوص ہے، اور پانچویں دن بھاوبیج (بھائی دج) جو کہ بھائی بہن کے رشتے کے لیے مخصوص ہے۔ اس طرح یہ تیوہار اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[4/8, 9:02 AM] Nawab Rana Arsalan: ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 8
رات کو دیوالی کی سب تیاریاں مکمل ہو جاتی ہیں، ہر کسی نے نئے کپڑے پہنے، گھر کو چراغوں سے سجایا گیا، ہر طرف دیے جلا کر روشن کیا گیا، مختلف شکلوں کے چراغ جلائے گئے، گھر کے اندر اور باہر گلی میں بھی دیے جلائے گئے۔
پھر سب نے مل کر دیوی لکشمی کی پوجا کی اور اس کے بعد آتش بازی بھی کی گئی۔
زندگی کتنی حسین ہے نا، جیا گھر کے سحن میں کھڑی روشن چراغوں کو دیکھ کر دل ہی میں کہہ رہی تھی۔
اب وقت ہے
سمجھ جاؤ
زندگی کتنی حسین ہے
اسے روشن کر چراغوں سے
کسی مفلِس کی دہلیز پہ
اک دیا جلا خوشیوں کا
ہر شہر سے بستی تک
ہر بستی سے گلی تک
ہر گلی سے دہلیز تک
دیے جلاؤ
اب وقت ہے
زندگی کتنی حسین ہے
اس روشن کر چراغوں سے
نواب رانا ارسلان
آپی۔۔ آپی ، جیا جو چراغوں کو دیکھتے ہوئے ایک عجیب سی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی اکاش کے پکارنے سے ایک دم چونک گئی، آپی کیا ہوا؟ آؤ نا پٹاخے پھوڑیں
جیا: نہیں تم جاؤ میرا من نہیں ہے
اکاش جیا کے کہنے پہ چلا گیا
اور جیا پھر سے اپنے خیالوں میں گم ہو گئی۔
پتہ نہیں کہاں ہوگا، دکھنے میں کیسا ہوگا، اسکی آواز کیسی ہوگی، وہ۔۔۔۔ وہ جو میرے خوابوں کا شہنشاہ ہوگا، جیا دل ہی میں کہہ رہی ہوتی ہے اور پھر اچانک سے اسے سمرن کی بات یاد آ جاتی ہے کہ "خواب کبھی حقیقت نہیں بنتے" نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، اے رام جی پلیز میرے خوابوں کو حقیقت کا رنگ ضرور دینا، جیا دل ہی میں دعا کرتی ہے۔
دیوالی کی سب رسومات مکمل ہونے کے بعد وہ اپنے ہوسٹل جانے کے لیے تیار ہوتی ہے، گھر والوں کو جیا بہت پیاری ہوتی ہے اس لیے سب کے چہروں پہ اداسی سی چھا جاتی ہے، خیر پڑھائی کے لیے جیا کا جانا تو لازم تھا۔
جیا کی ماما جیا کو بہت ساری دعاؤں سے رخصت کرتی ہیں اور جیا اپنے ہوسٹل جانے کے لیے گھر سے نکل جاتی ہے۔
ہوسٹل میں جیا اور سمرن دونوں کچھ دن تک اداس رہتی ہیں، کیوں کہ انہیں دیوالی کے دن یاد رہتے ہیں، آستہ آستہ پھر دونوں ماحول بہترین بنا لیتی ہیں۔
جیا اکیلی کالیج کی سیڑیوں پہ بیٹھی ہوتی ہے
تم یہاں اکیلی کیا کر رہی ہو؟ سمرن نے جیا کے پاس آکر بیٹھتے ہوئے کہا۔
کھلی آنکھوں سے خواب دیکھ رہی ہوں، جیا نے مسکرا کر کہا
او۔ ہو۔۔ ہمیں بھی تو بتاؤ کس کے خواب دیکھ رہی ہو؟ سمرن نے شرارتی لہجے سے کہا
ضروری تو نہیں کہ کسی شخص کے ہی خواب دیکھے جائیں، اور بھی بہت کچھ ہے دنیا میں جسے ہم خوابوں میں دیکھ سکتے ہیں، جیا نے سمرن کی طرف گردن موڑتے ہوئے کہا۔
اچھا جی ! سمرن نے مسکرا کر کہا
کالیج کی چھٹی کے بعد دونوں ہوسٹل جا رہی ہوتی ہیں، راستے میں ان کو کچھ لڑکے چھیڑتے ہیں اور دونوں ڈر کر وہاں سے بھاگ کر ہوسٹل چلے جاتی ہیں۔
دونوں ڈری اور سہمی سہمی سی تھیں اور کچھ وقت کے بعد انابیہ ان کے کمرے میں آتی ہے۔
تم دونوں کو کیا ہوا؟ انابیہ نے حیرانگی سے پوچھا
کچھ نہیں۔ جیا نے سہمے ہوئے لہجے سے کہا
بتاؤ یار ہوا کیا ہے؟ انابیہ نے اپنا سوال پھر سے دہرایا
وہ۔۔۔ وہ باہر کچھ لڑکے ہمیں تنگ کر رہے تھے، سمرن نے کپکپاتے ہوئے لہجے سے کہا
کہاں؟ کون تھے وہ لوگ؟ انابیہ نے حیرانگی سے پوچھا
راستے میں تھے پتہ نہیں کون تھے، سمرن نے جواب دیا
تم فکر مت کرو الله تعالی ان کو عقل دے، انابیہ نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
یہ زندگی بہت حسین ہے۔ لیکن ایسے لوگ اسے بد ترین کیوں بنا دیتے ہیں، جیا نے کھڑکی سے باہر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ڈونٹ وری۔۔ الله تعالی ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا، انابیہ جیا کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھو سیمی کالج جانے کا وقت ہو چکا ہے، اگلے دن صبح جیا سمرن کو کالیج جانے کے لیے اٹھاتی ہے۔
تم جاؤ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، سمرن نے دھیمی آواز میں کہا
کیوں کیا ہوا؟ جیا نے فکر مندی سے پوچھا
سر میں درد ہے، سمرن نے سر پکڑتے ہوئے جواب دیا
اوہ ۔۔ تمہیں تو بخار بھی ہے، جیا نے سمرن کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
سمرن: ہمممم
جیا: او ۔کے میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہوں
سمرن: نہیں تم جاؤ میں دوا لے لوں گی۔
لیکن میں تمہیں بخار کی حالت میں کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہوں، جیا نے قدرے فکر مندی سے کہا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
چراغ جلاتے چلو قسط 4
ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 4
کچھ وقت بعد دونوں کھانا کھا کر لیٹ جاتے ہیں اور باتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ازرق۔ آج بہت تھک گیا ہوں
ہنس راج: ابھی تو بہت گھومنا ہے، ہنس نے مسکرا کر کہا۔
ازرق: تم اتنا مسکراتے کیوں ہو؟
ہنس راج: کیوں تمہیں اچھا نہیں لگتا؟
ازرق: نہیں ایک تو تم ہو بہت خوبصورت دوسرا جب مسکراتے ہو تب اور بھی اچھے لگتے ہو، کاش کہ تم لڑکی ہوتے ازرق نے ہنس کر کہا۔
اور پھر دونوں ہنسنے لگ جاتے ہیں۔
ازرق۔ چلو کوئی گانا ہی سنا دو جناب
ہنس نے اپنی پیاری آواز سے میڈم نور جہاں کا گانا گایا
"آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی
ازرق: واھ کیا بات ہے تم اتنے پرانے گانے کیوں گاتے ہو؟
ہنس راج: پرانے گانے مجھے پسند ہیں اور ویسے بھی انگریزی میں کہتے ہیں نا اولڈ از گولڈ۔ ہنس نے مسکرا کر جواب دیا۔
اور پھر باتیں کرتے کرتے سو جاتے ہیں، اسی طرح تین چار دن گزر جاتے ہیں۔
پھر ایک دن بہت گرمی تھی، اوپر کالے بادل چھائے ہوئے تھے، ازرق اور ہنس دونوں پارکر کے ایک گاؤں کاسبو میں گھومنے گئے تھے، شدید گرمی میں ازرق کا بڑا حال تھا اتنی دیر میں بارش کی ایک بوند ازرق کے ہاتھ پر آ گڑی ازرق کی خوشی ایسی تھی جیسی اس صحرا کے مقامی لوگوں کی بارش آنے پہ خوشی ہوتی ہے۔ پھر اچانک سے بارش آنے لگی تیز بارش میں دونوں بھیگ چکے تھے اور ان کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔
ازرق: شکر ہے الله تعالی کا کہ بارش آئی
ہنس راج: تم تو مجھ سے بھی زیادہ خوش لگ رہے ہو
ازرق: ہاں اس بارش کا تو مجھے بہت انتظار تھا۔
پھر کچھ وقت بعد بارش تھم گئی، لوگوں میں خوشی کی لہر تھی، بھیڑ بکریاں اور سارے پرندے خوشی میں جھوم رہے تھے۔ مور خوبصورت رقص کر رہے تھے، موروں کا خوبصورت رقص دیکھ کر ازرق بہت خوش تھا، بارش کے بعد ہلکی ہلکی تازہ ہوا چل رہی تھی، درخت اور جھاڑیاں بارش سے نکھر کر بہت خوبصورت لگ رہیں تھی۔
ازرق: کتنا خوبصورت منظر ہے نا لوگ کتنے خوش ہیں ہر جانور خوشی کے گیت گا رہا ہے، مور کیسے جھوم رہے ہیں اور چڑیاں خوشی سے چہک رہیں ہیں شائید خدا کا شکر ادا کر رہیں ہیں۔
ہنس راج: ہاں ایسا ہی ہے
اور دونوں پھر وہاں سے لوٹ جاتے ہیں، اپنے گاؤں پہنچتے پہنچتے رات ہو جاتی ہے، رات کا کھانا کھا کر دونوں روز کی طرح باتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
ہنس راج: تم صحافت کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرتے؟
ازرق: یہ کام کم ہے کیا؟
ہنس راج: نہیں میرا مطلب ہے اس میں تم کماتے کیا ہوگے آزاد ہو کوئی تو آمدنی ہوگی تمہاری
ازرق: ہاں بابا کا اچھا کاروبار ہے، میں کمانا چاہتا ہوں لیکن مجھے وقت نہیں ملتا۔
ہنس راج: آخر تم گھومنے کے سوا کرتے کیا ہو جو تمہیں وقت نہیں ملتا، ہنس نے مسکرا کر کہا۔
ازرق: ابھی کیوں کہ یہاں نیٹ نہیں چلتا اس لیے مبائل فون استعمال نہیں کرتا، نہیں تو سارا دن مبائل استعمال کرتا ہوں۔
ہنس راج: کیوں اتنا مبائل کیوں استعمال کرتے ہو؟ کیا کرتے ہو مبائل پر؟
ازرق: شوشل مڈیا پر غریبوں کی آواز بنتا ہوں
ہنس راج: او ہو شوشل مڈیا پر کون سنتا ہوگا تمہاری
ازرق: شوشل مڈیا میں بہت طاقت ہے کبھی تو کوئی سنے گا۔
ہنس راج: اس سے تمہیں کیا فائدا؟
ازرق: ہر کام فائدے کے لیے نہیں کیا جاتا، انسانیت کے لیے بھی کچھ کرنا پڑتا ہے اور لوگوں کے کام آنا مجھے اچھا لگتا ہے، میں چاہتا ہوں ہر گھر میں خوشیوں کے چراغ جلتے رہیں۔
ہنس راج: اچھا تو شوشل ورکر ہو
ازرق: کوشش کرتا ہوں بننے کی ازرق نے مسکرا کر جواب دیا
ہنس راج: کاش کہ ہمارے حکمران بھی تمہاری جیسی سوچ رکھتے۔
ازرق: حکمرانوں کو اپنے تخت سے اٹھنے کی فرصت ہی کہا۔
ہنس راج: ہممم! پتھر سے چَکی بَھلی پیس کھائے سَنسار ۔
ازرق: تم نے یہ مثالیں کہا سے سیکھیں ہیں؟
ہنس راج: شوشل مڈیا سے، ہنس نے ہنس کر جواب دیا
پھر دونوں باتیں کرتے کرتے سو گئے۔
کچھ دن بعد مسلا دار بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، دونوں نگر گھومنے کے لیے نکل پڑے نگر کی پہاڑیوں سے بارش کا پانی لہروں کے زریعے ایک ندی میں آرہا تھا، ندی میں تیزی سے پانی چل رہا تھا دونوں ندی کے کنارے کھڑے مناظر دیکھ رہے تھے، پانی کی لہریں دونوں کے پاؤں سے ٹکراتی اور ازرق ایک پتھر پر بیٹھ کر پانی میں ہاتھ ہلاتا اور پر کشش منظر دیکھ کر سوچ میں ڈوپ گیا۔
ہنس راج: او دیوانے کون سی سوچ میں دوبے ہو؟ ہنس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
ازرق : نہیں کچھ نہیں! ازرق نے دھیمی آواز میں کہا
پھر دونوں راڑکووہ کی طرف چل دیے، راڑکووہ میں ایک پہاڑ کو تراش کر اس پر ایک گھوڑے اور ایک شخص جو گھوڑے کے اوپر بیٹھا ہوا تھا مورت بنی ہوئی تھی۔ اور ایک عجیب سی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا ، ازرق نے حیرانگی سے ہنس سے پوچھا یہ کس کی مورت ہے اور یہ کون سی زبان ہے؟
ہنس راج: زیادہ مجھے معلوم نہیں پر کہا جاتا ہے کہ یہ راجپوتوں کے زمانے میں تراشا گیا تھا، اور اس پر دیوا نگری زبان میں کسی مرے ہوئے شخص اور اس کی موت کی وجہ لکھی ہوئی ہے۔
اس کے بعد دونوں وہاں سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔..Next
منگل، 7 اپریل، 2020
پیر، 6 اپریل، 2020
ناول چراغ جلاتے چلو تیسری قسط
ناول
چراغ جلاتے چلو
از ۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 3
ازرق ان سے مل کر خوش ہوا اور پھر کھانا کھانے لگ گئے، کھانا کھانے کے بعد راج کمار برتن لے گیا اور کچھ وقت تک رام سنگ جی سے باتوں کا سلسلہ چلتا رہا پھر راج کمار چائے لے کر آیا اور اور ازرق نے چائے پیتے ہی کہا واھ کیا کمال کی چائے بنائی ہے ہنس مسکرایا اور بولا یہاں خالص دودھ ہوتا ہے۔ سب نے چائے پی لی تھی راج کمار اور رام سنگ چلے گئے اور پھر دونوں میں باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ازرق۔ تم کرتے کیا ہو؟
ہنس راج: میں نے پڑھائی مکمل کر لی ہے اب سرکاری نوکری کی تلاش میں ہوں۔
ازرق۔ ہا ہا ہا سرکاری نوکری؟
ہنس راج: کیوں اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟
ازرق: سرکاری نوکریاں اتنی آسانی سے نہیں ملتی۔
ہنس راج: ہاں یہ بات تو ہے۔
ازرق: یہاں 3G نہیں چلتا کیا؟
ہنس راج: یہاں سنگنل مشکل سے آتے ہیں تم 3G کی بات کر رہے ہو۔ ہنس نے ہنس کر جواب دیا۔
ازرق: مبائل چارج کرنے کے لیے بھی کوئی بندوبست نہیں ہے کیا؟
ہنس راج: مبائل چارج کرنے کے لیے سولر پینل ہے۔
اتنی دیر میں راج کمار بستر لے کر آیا جس میں ایک چادر، تکیہ اور ہاتھ سے کڑھی ہوئی رلی تھی جس پہ مختلف رنگوں کے پھول بنے ہوئے تھے۔ یہ یہاں کی ثقافتی رلی تھی جو بہت خوبصورت تھی۔
راج کمار نے بڑے ادب کے ساتھ بستر بچھایا اور پھر وہاں سے چلا گیا، دونوں اپنی اپنی چارپائی پہ لیٹ گئے اور باتوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔
ازرق: ان جھاڑیوں میں سانپ اور بچھو بھی ہوتے ہونگے۔
ہنس راج: ہاں ہوتے ہیں لیکن وہ مہمانوں کو کچھ نہیں کہتے ہنس نے مسکرا کر کہا۔
ازرق: انہیں کیا پتہ کے مہمان کون اور مقامی لوگ کون ہیں۔
ہنس راج: ہاں یہ بات بھی ہے۔
ازرق کیوں کہ تھک چکا ہوتا ہے اس لیے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور کچھ وقت بعد ازرق کے کانوں میں ایک پیاری سی مدھم سی لتا منگیشکر کے گانے کی آواز آتی ہے اور ازرق اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے وہ گانا ہنس گا رہا ہوتا ہے۔
"اے دل نادان اے دل نادان
آرزو کیا ہے جستجو کیا ہے
اے دل نادان اے دل نادان
ہم بھٹکتے ہیں کیوں بھٹکتے ہیں
دشت و صحرا میں
ایسا لگتا ہے موج پیاسی ہے
اپنے دریا میں
کیسی الجھن ہے کیوں یہ الجھن ہے
ایک سایہ سا رو برو کیا ہے
اے دل نادان اے دل نادان
آرزو کیا ہے جستجو کیا ہے
ازرق ہنس کی طرف غور سے دیکھ رہا ہوتا ہے اور مسکرا کر کہتا ہے کہ لتا جی کے فین ہو؟
ہنس راج: ہاں بہت بڑا
ازرق: تم بہت اچھا گاتے ہو
ہنس راج: شکریہ تعریف کے لیے۔ ہنس نے مسکرا کر کہا
اور پھر پھر ازرق چپ ہو جاتا ہے ایک سوچ میں پڑ جاتا ہے۔
ہنس راج: چپ کیوں ہو گئے کیا سوچ رہے ہو؟
ازرق: پتہ نہیں میری آنکھوں کے سامنے وہ کنوا، ماروی کی مورتی اور ڈاچی والا شخص کیوں بار بار آ رہا ہے، بارش کے بعد لوگ یہاں جب ڈاچی پہ سفر کرتے ہونگے ہر طرف سر سبز ہوتا ہوگا کتنا مزہ آتا ہوگا نا۔
ہنس راج: تم یہیں کیوں نہیں رہ لیتے ویسے بھی دیوانے لوگ دشت و صحرا میں ہی رہتے ہیں، ہنس نے مسکرا کر کہا۔
ازرق: تمہیں کیوں ایسا لگتا ہے کے میں دیوانا ہوں ؟
ہنس راج: تمہاری باتیں کہتی ہیں کہ تم دیوانے ہو، چلو اب سو جاؤ رات بہت ہو چکی ہے۔
اور پھر دونوں سو جاتے ہیں۔
صبح جب ہنس راج کی آنکھ کھلتی ہے تو ازرق اپنی چارپائی پر نہیں ہوتا، ہنس ادھر اُدھر دیکھتا ہے تو ازرق اسے کٹیا میں نماز ادا کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔
جب ازرق نماز پڑھ لیتا ہے تو ہنس مسکرا کر کہتا ہے
ہنس راج: میں تو گھبرا گیا تھا کہ تم پتہ نہیں کہا چلے گئے ہو۔
ازرق: میں نماز پڑھ رہا تھا
ہنس راج: ہاں میں نے دیکھا عبادت بھی کرنی چاہیے
ازرق: بلکل جناب
ہنس راج: ویسے بھی کہتے ہیں نا " شو جپیں نہ رام جپیں نہ ہری سے لاویں ہیت، وہ نراسے جائیں گے جوں مولی کے کھیت"
ازرق: مثال تو بہت اچھی دے لیتے ہو۔
تھوری دیر بعد ہلکی ہلکی روشنی ہوئی چڑیاں چہک رہیں تھی، طلوع آفتاب کا وقت ہو چکا تھا ہوا میں نمی اور تازگی تھی سورج کی کرنے پڑتے ہی رات کے اندھیرے کے خوفناک منظر سے ایک بہت ہی خوبصورت منظر میں بدل گیا تھا، آسمان پہ ہلکہ ہلکہ بادل تیزی سے ایک طرف جا رہے تھے۔ دونوں نے کچھ وقت بعد ناشتہ کیا اور سیرو تفریح کے لیے نکل دیے، چلتے چلتے اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں پہنچ گئے، یہ گاؤں ایک بڑے ٹیلے پر تھا اور میٹھے پانی کا کنوا نیچے تھا جہاں سے گاؤں کی عورتیں مٹی کے گھڑے میں پانی لے کر آرہی تھیں ازرق نے دل ہی میں سوچا یہ کتنا کٹھن کام ہے اور یہ عورتیں کتنی آسانی سے کر رہی ہیں جو ایک ہی قطار میں سب کی سب سیدھی آرہی ہیں اس ٹیلے پر تو چڑھنا ہی بہت مشکل ہے یہ کتنے آرام سے آرہی ہیں۔
ازرق نے ہنس سے سانگر (کنڈی ، جند ) کے درخت کی طرف ہاتھ کر کے پوچھا یہ کس چیز کا درخت ہے۔
ہنس راج: ہماری زبان میں اسے کنڈی کہا جاتا ہے، یہاں اس کی پھلی کے سالن کو بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔
ازرق: ہمممم
دونوں گھومتے گھومتے کافی دور کسی گاؤں میں پہنچ جاتے ہیں دوپہر کا وقت ہو گیا تھا اور گرمی بہت تھی تیز گرم ہوا اور تپتی ہوئی ریت پر چل کر دونوں تھک گئے تھے گلا پیاس کی وجہ سے خشک ہو چکا تھا، ہنس نے ایک شخص کو آواز دی اور وہ پانی لے کر آیا اور دونوں سے بہت عزت کے ساتھ پیش آیا اور دونوں کو کھانا کھانے کی پیش کش کی جو ہنس نے قبول کر لی کیوں کہ تھکاوٹ کی وجہ سے بھوک بھی لگ گئی تھی، وہ شخص دونوں کو ایک کٹیا میں لے گیا اور کٹیا کے اندر چٹائی بچھی ہوئی تھی وہیں پر بیٹھ گئے کچھ دیر بعد وہ کھانا لے کر آیا اور کھانا کھانے کے بعد کچھ وقت آرام کرنے کے بعد دونوں اٹھے اور اس شخص سے رخصتی کی اجازت مانگ کر دونوں چل دیے، اپنے گاؤں کی طرف چلتے چلتے شام ہو چکی تھی، ازرق سے تو تھکاوٹ کے مارے چلا نہیں جا رہا تھا، ہوا بھی پہلے سے کم ہو چکی تھی پھر آخر غروب آفتاب سے قبل وہ اپنے گاؤں پہنچ ہی گئے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔ Next
اتوار، 5 اپریل، 2020
ناول چراغ جلاتے چلو دوسری قسط
ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 2
ہنس راج: اس میں تکلف کی کیا بات ہے تم اس صحرا کے مہمان ہو تمہاری خدمت کرنا میرا فرض ہے۔
ازرق: لیکن بارش کے انتظار میں میں کب تک تمہارے پاس رہو گا؟ بارش کا کیا پتہ کب آئے۔
ہنس راج: تم ساری عمر میرے پاس رہ سکتے ہو مجھے کوئی مسلہ نہیں، بلکہ تم میرے پاس ہی رہو گے ہنس نے بے تکلف ہو کر ضدی انداز میں کہا۔
ازرق: ٹھیک ہے تمہاری بات مان لیتے ہیں ازرق نے مسکرا کر جواب دیا۔
پھر دونوں ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگ گئے، بس ایک اسٹاپ پہ رکی ہنس نے کہا چلو ہماری منزل آ گئی، دونوں وہاں پر اتر جاتے ہیں۔
ازرق : یہ تمہارا گاؤں ہے؟
ہنس راج: نہیں یہ میرا گاؤں نہیں میرا گاؤں یہاں سے 3 کلو میٹر دور ہے، یہ بھالوہ ہے شائید تم نے سنا ہوگا۔
ازرق: نہیں میں نے نہیں سنا۔
ہنس راج: یہاں پہ ماروی کا کنوا ہے۔
ازرق: او اچھا ! مجھے بہت تمنا ہے ماروی کا کنوا دیکھنے کی۔
ہنس راج: چلو آج تمہاری یہ تمنا بھی پوری ہو جائے گی میرا گاؤں بھی اسی طرف ہے، ہنس نے مسکرا کر کہا۔
پھر دونوں اپنی منزل کی طرف چلنے لگے، شام ہو چکی تھی غروب آفتاب کا وقت قریب تھا، دونوں ایک ٹوٹی ہوئی سڑک پر پیدل اپنی منزل کی جانب رواں تھے کچھ سفر کے بعد دونوں ماروی کے کنویں پر پہنچ گئے ہنس نے ازرق کو بتایا کہ یہ ماروی کا کنوا ہے، جہاں بہت بڑی چار دیواری اور اندر چار پانچ کٹیا تھیں، لوہے کا دروازہ تھا دروازے کے باہر ایک شخص اپنی ڈاچی لیے بیٹھا تھا، جو ہر گھومنے والے کو بلاتا اور کہتا کہ آؤ ڈاچی پہ بیٹھ کر تصاویر بنا لو، ڈاچی پر بہت ہی بناؤ سنگھار کیا ہوا تھا۔ دونوں دروازے سے اندر داخل ہوئے سامنے ہی کنوا تھا جسے ماروی کا کنوا کہا جاتا ہے جو پارکر کے پتھروں سے بنا ہوا تھا۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک بورڈ پر ماروی کلچر سینٹر لکھا ہوا تھا۔ کنویں سے کچھ مقامی لوگ پانی بھر رہے تھے کنویں کے ایک طرف چند قدموں پہ 4، 5 کٹیا تھیں جو بہت ہی خوبصورت بنائی ہوئی تھیں، دونوں ایک کٹیا کے اندر داخل ہوئے کیوں کہ غروب آفتاب کا وقت تھا اس لیے کٹیا کے اندر اندھیرا تھا ہنس نے مبائل کی ٹارچ آن کی جس سے روشنی ہوئی ، کٹیا کے اندر ایک طرف ماروی کی مورتی اور دوسری طرف شائید عمر سومرو کی مورتی تھی اور کچھ پیتل کے برتن تھے اور ایک کرتا تھا جس میں شیشے لگے ہوئے تھے
ازرق نے حیرانگی سے پوچھا یہ کس کے ہیں؟
ہنس راج: یہ ماروی کے ہیں برتن بھی اور کرتا بھی۔
ازرق ان کٹیا اور کنویں کو دیکھ کر عجیب سوچ میں پر گیا۔
ہنس راج: کیا سوچ رہے ہو؟
ازرق: کیا ماروی کو علم تھا کہ اس کی یاد میں لوگ برسوں بعد بھی اسے یاد رکھیں گے، اور اس طرح کی شاندار اور خوبصورت کٹیا بنا دیں جائیں گی، اس کی مورتی بنا دی جائے گی اور لوگ دور دور سے آ کر اس کی مورتی اور اس کنویں کو دیکھیں گے کتنا عجیب ہے نا۔
ہنس راج: چلو اب چلتے ہیں ورنہ کیا پتہ تم واپس ماروی کے زمانے میں لوٹ جاؤ ہنس نے مسکرا کر کہا۔
پھر سے دونوں اپنی منزل کی طرف چل دیے، سورج غروب ہو چکا تھا ہنس راج کے گاؤں کا راستہ کچہ تھا، ریت پہ چلنا مشکل تھا، ہنس تو ان راستوں پہ چلنے کا عادی تھا لیکن ازرق کے لیے یہ راستہ بہت کٹھن تھا۔
پیلو اور کنڈی کے درخت (جسے سانگر یا جنڈی کا درخت بھی کہا جاتا ہے) اور کھپ کی جھاڑیاں بہت ہی خوفناک منظر پیش کر رہیں تھی ازرق دل ہی میں سوچ رہا تھا کہ یہ ہنس مجھے پتا نہیں کہا لے آیا ریت کا ایک بہت بڑا ٹیلا پار کر کہ ہنس کے گاؤں جانا تھا، جس کو پار کرتے کرتے ازرق تو تھک گیا تھا ہنس ازرق کو دلاسا دیتا رہا کہ بس اب قریب ہی ہے، اتنا کٹھن راستہ عبور کر کے آخر وہ اپنے گاؤں پہنچ گئے، چھوٹا سا گاؤں تھا جس میں صرف چند گھر تھے۔
ہنس راج: لو ہم پہنچ گئے ہنس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ازرق: شکر ہے الله تعالی کا ازرق نے بلند آواز میں کہا۔
ہنس کے گھر سے تھوڑا ہی دور ایک کٹیا بنی ہوئی تھی، جس کے چاروں طرف کانٹوں کی دیوار بنی ہوئی تھی۔
ہنس راج: یہ ہمارا مہمان خانہ ہے ہنس نے مسکرا کر کہا۔
ازرق: یہ گاؤں سے دور کیوں بنائی ہے؟
ہنس راج مسکرایا اور اطاء الله کا گانا گن گنانے لگ گیا ۔۔
"جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہر جائی ہے
اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کٹیا کے ماتھے پہ لکھوایا ہے
سب مایہ ہے ، سب مایہ ہے
ازرق: واھ تم تو بہت اچھا گا لیتے ہو تم گلوکار کیوں نہیں بن جاتے
ہنس راج: سوچیں گے ہنس نے مسکرا کر جواب دیا۔
ازرق: اس گاؤں کا نام کیا ہے؟
ہنس راج: پرتاب سنگ کی دھانی، پرتاب سنگ میرے دادا کا نام تھا۔
ازرق: اب اندر لے کر جاؤ گے یا یہیں پر بٹھاؤ گے، ازرق نے مسکرا کر کہا
ہنس راج: ہاں چلو اندر
ہنس ازرق کو اندر لے جاتا ہے اور کٹیا سے ایک چار پائی لا کر باہر سحن میں رکھتا ہے اور کہتا ہے تم بیٹھو میں پانی لے کر آتا ہوں۔
اب بلکل اندھیرا ہو چکا تھا ازرق چارپائی پہ اکیلا ایک انجان جگہ میں بیٹھا ہوا تھا مہمان خانے کے باہر گھنی جھاڑیاں تھیں اور تیز آندھی جیسی ہوا چل رہی تھی مہمان خانے کا سحن بڑا تھا ایک طرف ایک نیم کا درخت تھا جس سے ہوا ٹکڑا کر سر سر سی خوفناک آواز آ رہی تھی گاؤں سے موروں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں، ازرق اتنے خوفناک منظر میں اکیلا گھبرا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ہنس پانی لے کر آتا ہے اور بڑے ادب کے ساتھ پانی پیش کرتا ہے اور ازرق کا سامان اٹھا کر کٹیا میں رکھ دیتا ہے اور ایک اور چارپائی نکال کر بیٹھ جاتا ہے، ایسے ہی باتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ وقت بعد ہنس راج کے والد اور چھوٹا بھائی کھانا لے کر آتے ہیں۔ ہنس راج ازرق سے اپنے والد اور بھائی کا تعارف کرواتا ہے۔
ہنس راج: یہ میرے بابا رام سنگ جی اور چھوٹا بھائی راج کمار ہے۔
ہفتہ، 4 اپریل، 2020
چراغ جلاتے چلو از قلم نواب رانا ارسلان قسط نمبر۔1
ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 1
60 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بس جا رہی تھی ٹوٹے ہوئے شیشوں سے ہوا ایسے آ رہی تھی جیسے بس بہت ہی زیادہ رفتار میں ہو ، سیٹوں سے زیادہ لوگ کھڑے اور اوپر چھت پر بیٹھے ہوئے تھے، بس میں حد سے زیادہ شور اور سگریٹ کا دھواں تھا، بس ایک بہترین روڈ پر چل رہی تھی اور دونوں اطراف ریت کے بڑے بڑے ٹیلے تھے۔ ازرق اتنے شور میں ایک سیٹ پر بیٹھا کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ لوگ یہاں کیسے سفر کر لیتے ہیں۔ بس ہر 5 سے 7 منٹ بعد کسی اسٹاپ پہ رکتی اور کچھ لوگ اپنی منزل پر اترتے اور کچھ نئے مسافر چڑھ جاتے۔ سگریٹ کے دھویں سے ازرق کا سر درد کرنے لگ جاتا ہے اور وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا پھر اسے خیال آتا کہ باہر کے مناظر دیکھوں اور وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ جاتا، جہاں کہیں لوگ اپنی جھومپڑیوں میں بیٹھے ہوتے، کہیں پہ کوئی کنویں سے پانی نکال رہا ہوتا تو کہیں پہ کوئی درختوں کے پتے کاٹ کر بکریوں کو دے رہا ہوتا اور کہیں پہ اونٹ خود اپنا پیٹ بھرنے کے لئے درختوں کے پتے کھا رہے ہوتے۔ اس صحرا میں جانوروں کے کھانے کے لیے صرف درختوں کے پتے ہی تھے۔
لوگوں کے ساتھ ساتھ یہاں جانوروں کے دل میں بھی بارش کی اُمنگ ہوگی ، ازرق دل ہی میں سوچ رہا تھا۔ ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں میں ایک بہت ہی خوبصورت شہر بسا ہوا تھا، جہاں کے شہری دکھنے میں کافی پڑھے لکھے لگ رہے تھے۔ شہر کے بس اسٹاپ پہ بس جا کر رکی اور کچھ مسافر وہاں پر اتر گئے ۔ بس مٹھی بس اسٹاپ پہ رکی تھی ازرق کی منزل ابھی بہت دور تھی وہ دل ہی میں سوچ رہا تھا کہ پتا نہیں کب یہ سفر ختم ہوگا۔ بس رکنے کے ساتھ ہی تین چار بچے بس میں آئے جن میں سے کوئی پانی بیچ رہا تھا کوئی جوس اور کوئی سموسے بیچ رہا تھا ان بچوں کی زیادہ عمر نہیں تھی، ازرق دل ہی میں سوچ رہا تھا کہ، یہ بچے پڑھتے کیوں نہیں کیا یہ اتنے بے بس ہیں کہ پڑھنے کی عمر میں یہ اپنا پیٹ پالنے کی خاطر بسوں میں مختلف اشیاء بیچ رہے ہیں۔ اتنی دیر میں ایک بچہ ازرق کے پاس آکر کہنے لگا ، صاحب پانی لے لو 20 روپے کی بوتل ہے گرمی کافی ہے لے لو۔ ازرق نے جواب میں کہا تم پڑھتے کیوں نہیں ؟ بچے نے مسکرا کر جواب دیا پڑھنے کے لیے کتابیں چاہیے اور ہمیں دو وقت کا کھانا بھی پانی بیچ کر ملتا ہے۔ ازرق نے بچے سے پانی لے لیا اور پھر سوچ میں ڈوب گیا کہ کیا یہی ان بچوں کا نصیب ہے۔
اتنی دیر میں بس کا چلنے کا وقت ہو جاتا ہے اور ازرق کے پاس ایک نوجوان لڑکا آکر بیٹھ جاتا ہے جو ازرق کی طرف غور سے دیکھتا ہے، ازرق دل ہی میں سوچتا ہے کہ اسے پتا نہیں میرے اندر کیا نظر آیا جو اتنی غور سے دیکھ رہا ہے۔ ازرق اسے بڑے ادب کے ساتھ سلام پیش کرتا ہے اور وہ سلام کا جواب دیتا ہے اسی طرح باتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
تم کہا جا رہے ہو ؟ لڑکے نے سوال کیا
ازرق نے جواب دیا میری منزل کا مجھے پتا نہیں بس اتنا جانتا ہوں کہ پارکر جانا ہے
اچھا پارکر کیا کرنے جا رہے ہو؟ لڑکے نے سوال کیا
ازرق : مجھے پہلی بارش میں مور کو ناچتے دیکھنا ہے
لگتا ہے دیوانے ہو خیر میرا نام 'ہنس راج" ہے ہنس راج نے مسکرا کر جواب دیا
ازرق: ماشااللہ بہت اچھا نام ہے
ہنس راج: تم کرتے کیا ہو ؟
ازرق : میں ایک صحافی ہوں، آزاد صحافی
ہنس راج : اسی لیے آزاد گھوم رہے ہو، ہنس نے مسکرا کر کہا
ازرق: ہاں ویسے کہنے کو آزاد ہوں لیکن آزادی سے بہت دور ہوں، ازرق نے مایوسی سے دھیمی آواز میں کہا۔
ہنس راج: اتنے مایوس کیوں ہو؟ ہمارے نام کے ساتھ آزاد لگتا ہے کیا یہ کافی نہیں؟
ازرق : کیا اتنا تمہارے لیے کافی ہے ؟
ہنس راج : میرے لیے تو کافی ہے
اتنی دیر میں بس چلنے لگ جاتی ہے۔ شہر سے باہر پھر سے ریت کے بڑے بڑے ٹیلے آ جاتے ہیں اور پھر سے وہی مناظر نظر آتے ہیں جو ازرق پیچھے چھوڑ آیا تھا۔
ازرق کھڑکی سے باہر جانوروں کو دیکھتا ہے اور کہتا جب بارش آتی ہوگی ان جانوروں کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانا ہی نہیں ہوتا ہوگا، شائید اسی لیے مور پہلی بارش میں رقص کرتے ہونگے، کیا ہی خوبصورت منظر ہوتا ہوگا نا، ہنس راج نے ازرق کی طرف حیرانگی سے دیکھا اور دل ہی میں سوچا کہ یہ تو بہت بڑا دیوانا ہے۔
ہنس راج : ہاں بارش کے مناظر تو یہاں بہت خوبصورت ہوتے ہیں، ویسے تمہارا نام کیا ہے؟
ازرق : ازرق
ہنس راج: او اسی لیے تم دیوانے ہو تم میں اتنی محبت بھری ہے۔ ہنس نے مسکرا کر کہا
ازرق : میرے نام کے ساتھ محبت کا کیا تعلق ہے؟ ازرق نے حیرانگی سے پوچھا
ہنس راج: ازرق کا مطلب نیلا ہوتا ہے اور محبت کا رنگ بھی نیلا ہوتا ہے۔
ازرق: تم کیا جانتے ہو محبت کے بارے میں کیا ہوتی ہے محبت؟
ہنس راج: میں ہنس راج ہوں رانجھا نہیں ، ہنس نے مسکرا کر جواب دیا اور دونوں مسکرانے لگ گئے پھر دونوں خاموش ہو گئے۔
ازرق پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ کیا اور دل ہی میں سوچ رہا تھا کہ یہ زمین کتنی خشک ساز ہے جیسے برسوں سے پیاسی ہو۔
بس میں لوگوں کے شور سے تنگ آکر ازرق نے ہنس سے کہا کہ یہاں اتنا شور کیوں ہے؟
ہنس راج: کیوں تمہارے علاقے میں لوگ گونگے ہوتے ہیں؟ ہنس نے مسکرا کر کہا
ازرق: نہیں مجھے خاموشی پسند ہے
ہنس راج: بس میں یہاں کے لوگ ایک دوسرے سے دنوں بعد ملتے ہیں اور پھر اپنی اِدھر اُدھر باتیں کرتے ہیں کوئی بارش آنے کی پیشگوئی کرتا ہے، کوئی اپنے گائوں کے قصے سنانے لگ جاتا ہے اور کوئی اپنی بھیر بکریوں کی کہانیاں سناتا ہے۔ اچھا تم پارکر میں کہا رہو گے؟
ازرق: نگر کے کسی ہوٹل میں رہ لوں گا۔
ہنس راج: ہوٹل میں تو تمہیں پہلی بارش میں مور کا رقص دیکھنے کو نہیں ملے گا، اس کے لیے تمہیں کسی گاؤں میں رہنا پرے گا۔
ازرق: گاؤں میں ہوٹل نہیں ہوتے
ہنس راج: ہاں اب تمہیں بہترین کمرہ تو نہیں مل سکتا ہنس راج نے مسکرا کر جواب دیا
ازرق: نہیں میں کٹیا میں بھی رہ سکتا ہوں
ہنس راج : تو چلو پھر میرے گاؤں۔
ازرق: نہیں میں تمہیں تکلف نہیں دے سکتا۔
جاری ہے ۔۔۔Next
جمعہ، 3 اپریل، 2020
جمعرات، 2 اپریل، 2020
شاعرہ، طوبیٰ امجد
کرونا وائرس پر آزاد نظم
کرونا کو تم ختم کرو نا
تھوڑی سی احتیاط کرو نا
خدا کے آگے التجا کرو نا
خدا یہ وائرس ختم کرو نا
بچاؤ خود کو اس وبا سے
کرو علاج تم دعا سے
ختم کرنا ہو جو کرونا
دن میں ہاتھ تم بار بار دھونا
خدا کے آگے بار بار تم رونا
پھر نہیں چھوئےگا تمہیں کرونا
ترقیوں کو جو جا لگے تھے
زمین بوس ہیں وہ سارے
اے پیارے سمجھ اشارے
کیا کہنا چاہتا ہے خداراہ
کچھ وقت اس کی یاد میں صرف کرو نا
تم خدا کے آگے دعا کرو نا
کرونا یہ سب کیا کررہا ہے
انسان سے انسان مر رہا ہے
بخشش کا تم سامان کرو نا
یا اللہ ہم کو معاف کرو نا
اپنی رحمت سے تم ڈھانپ لو نا
کرونا کو تم ختم کرو نا
وہ پیار کرتا ہے تم سے ممتا جیسا
تم بھی اس سے پیار کرو نا
شرک کو چھوڑو بدعت کو چھوڑو
اے ایمان والو اس کو ایک کہو نا
نہ تم بناؤ اس کے شریک
کیونکہ وہ تو ہے واحدہ لاشریک
یہ پیر منگتے فقیر چھوڑو
کبھی تو اسکی عبادت کرو نا
ہے اسکا فیض ہر سو
اسکے فیض کو طلب کرو نا
یا حفیظ و یا عزیز و یا رفیق کا
تم ہر وقت ورد کرو نا
ہے آیا عذاب کیونکر یہ تم پر
یہ سوچ کر تم توبہ کرو نا
زمین کو چیرا آسمان کو چوما
اب ہوا کیا ہے تم کو اس کا کچھ کا علاج کرونا
سب ہربےتم نے آزما لئے ہیں
اب میری مانو تو تم توبہ کرو نا
شاعرہ
(طوبیٰ امجد 109 رب ورکشاپ فیصل آباد)
تعلیم بنیادی حق
تعلیم بنیادی حق
تحریر: نواب رانا ارسلان٬ اسماعیل آباد
تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ہر بچا اسے حاصل نہیں کر سکتا کیوں کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی نہیں ہوتی اور پرائیویٹ کی فیس ہر کوئی ادا نہیں کر سکتا۔ افسوس کہ گلِ چمن سڑکوں پہ پانی جوس اور پھول بیچ رہے ہیں اور روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگانے والوں کو کسی کی فکر نہیں، پہلے چار دن شوشل ورکرز کی طرف سے ایک نعرہ بلند ہوا تھا کہ "تعلیم دو" "تعلیم دو" لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ آواز بھی تھم چکی ہے۔ سندھ کے بہت سے سرکاری اسکولوں کی عمارات میں لاکھوں روپے خرچ ہوئے ہیں لیکن ان میں تعلیم کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ افسوس کہ یہاں بہت سے میٹرک کے ایسے شاگرد بھی ہیں جنہیں اردو پڑھنی نہیں آتی، استاد اسکولوں میں آتے ہیں اور سارا دن باتیں کرتے ہیں اور پھر چھٹی کے وقت اپنے گھروں میں چلے جاتے ہیں۔ امتحانات میں سرِعام نکل ہوتی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
سرکاری اسکولوں میں استاد بہت پڑھے لکھے ہیں لیکن بچوں کو پڑھاتے نہیں ہیں بعض جگوں پہ تو استاد اسکول بھی نہیں آتے اور مفت کی تنخوا لیتے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھائی تو ہوتی ہے لیکن ان کے استاد زیادہ تجربہ گار نہیں ہوتے اور پرائیویٹ اسکولوں کی فیس ہر بچا ادا بھی نہیں کر سکتا۔ سندھ میں کاپی کلچر عروج پر پہنچا ہے، اردو زبان کی تو یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، چند ایک کے سوا یہاں کوئی شخص اردو سے اچھی طرح واقف ہی نہیں۔
استاد کا احترام کرنا ہر شاگرد کا فرض ہے لیکن میں نے بہت سے پرائیویٹ اسکولوں میں دیکھا ہے کہ شاگرد استاد کا احترام نہیں کرتے وہ اس لیے کہ وہ فیس دیتے ہیں، یہ بہت نامناسب سی بات ہے، شاگردوں کو چاہیے کہ وہ استاد کا دل سے احترام کریں کیوں کہ جو شاگرد استاد کا احترام نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
الله تعالی ہمارے سرکاری اسکولوں کے ایسے استادوں کو ہدایت دے جو مفت کی تنخوا لیتے ہیں لیکن پڑھاتے نہیں، اور الله تعالی ہمیں اور وطنِ عزیز کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ آمین
بدھ، 1 اپریل، 2020
یاسر اور حِنا ، از قلم، علیشاء اکرم ، اسماعیل آباد
اردو کہانی
یاسر اور حِنا
از قلم۔ علیشاء اکرم
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شہزادی ہوتی ہے جس کا نام حنا ہوتا ہے وہ بہت خوبصورت ہوتی ہے وہ ایک رات ایک دوست کی شادی پر جاتی ہے وہاں ایک لڑکا یاسر ہوتا ہے جو کہ فوجی ہوتا ہے وہ بھی بہت خوبصورت تھا حنا کو یاسر بہت پسند آتا ہے ایک اور لڑکی یاسر کو پسند کرتی ہے اس کا نام حرا تھا مگر یاسر بھی حنا کو پسند کرتا تھا۔ حرا حنا کو جھوٹ بولتی ہے کہ یاسر لڑکیوں کو دھوکا دیتا ہے مگر حنا کو اس پر یقین نہیں ہوتا وہ دونوں روزانہ ملنے لگتے ہیں وہ دونوں نکاح کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں مگر یاسر کو ایک جنگ پر جانا ہوتا ہے حنا یاسر کو چھوڑنے جاتی ہے جنگ کے بعد پیغام آتا ہے کہ یاسر اب اس دنیا میں نہیں رہا مگر یہ جھوٹ تھا حنا کو یہ جھوٹی خبر سن کر اتنا دکھ ہوتا ہے کہ وہ رونے لگتی ہے کچھ عرصے بعد یاسر سے ملتی ہیں تو خوشی سے گلے لگ جاتی ہے پھر یاسر کا دوست سفیان اس کا دشمن بن جاتا ہے کیوں کہ وہ حنا کو پسند کرتا تھا مگر حنا نہیں پسند کرتی تھی۔ سفیان یاسر کے ماں باپ کو مار دیتا ہے اور دوسرے لوگوں پر نام لگا دیتا ہے پھر وہ یاسر کے بھائی نمعان کو بھی مار دیتا ہے جو کہ یاسر کا سب سے خوبصورت اور چھوٹا بھائی تھا۔ یاسر کو یہ بات نہیں پتا تھی کہ اس کے ماں باپ اور بھائی کو کس نے مارا ہے۔ جب یاسر کو یہ بات پتا لگتی ہے کہ اس کے ماں باپ اور بھائی کو سفیان نے مارا ہے تو یاسر کیس لڑتا ہے اور جج سفیان کو عمر قید کی سزا سنا دیتا ہے۔ جب یاسر اور حِنا کا نکاح ہوتا ہے تو کچھ عرصے بعد ان کا بیٹا ہوتا ہے اس کا نام وہ نمعان رکھتے ہیں اور ہسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)