[4/8, 8:58 AM] Nawab Rana Arsalan: ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 5
رات کو جب سونے کے لیے لیٹتے ہیں تو ازرق ہنس سے کہتا ہے کہ میں کل واپس اپنے گھر کراچی چلا جاؤں گا۔
ہنس راج: کیوں ! کچھ دن اور رہ لو۔
ازرق: نہیں ! اب بہت گھوم لیا اب واپس جانا ہے۔
ہنس راج: ٹھیک ہے جیسے جناب کی مرضی، ہنس نے اداسی سے کہا
ازرق: اداس مت ہونا تم بھی کبھی آنا کراچی اور مجھے بھی خدمت کا موقع دینا
ہنس راج: ہاں ضرور
ازرق: اب اپنی پیاری سی آواز سے ایک گانا سنا دو
ہنس راج لتا جی کا گانا سناتا ہے۔
"جس کا جتنا ہو آنچل یہاں پہ
اسکو سوغات اتنی ملے گی
گل جیون میں گر نہ ملیں تو
کانٹوں سے بھی نبھانا پڑے گا
زندگی پیار کا گیت ہے
اسے ہر دل کو گانا پڑے گا
پھر دونوں سو جاتے ہیں
صبح ہوتے ہی ناشتہ کر کہ ہنس ازرق کو بس اسٹاپ پر چھوڑنے جاتا ہے بس کے انتظار میں دونوں اسٹاپ پر کھڑے ہوئے تھے، دونوں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے، شائید ازرق کا دل نہیں کر رہا تھا جانے کو ہنس بھی اسے زور لگا رہا تھا کہ کچھ دن رک جاؤ لیکن ازرق رکنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
ہنس راج: رک جاتے تو اچھا تھا
ازرق: نہیں بہت دن یہاں رہا ہوں اب پھر کبھی آؤں گا
ہنس راج: ٹھیک ہے رابطہ میں رہنا
ازرق: انشالله
اتنی دیر میں بس آجاتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر الودہ کہتے ہیں اور پھر ازرق بس میں چڑھ جاتا ہے اور بس کے دروازے میں کھڑا ہو کر کافی دور تک ہنس راج کو دیکھتا رہتا ہے، ہنس بھی وہیں کھڑا رہتا ہے، جب بس ہنس کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے، ہنس وہاں سے اداس چہرا لے کر واپس گھر لوٹ جاتا ہے۔
✴✴✴✴✴✴✴
تم کیا کھاؤ گی؟۔ سمرن نے جیا سے پوچھا
جیا: میں تو بس جوس پیوں گی
سمرن: صرف جوس لگتا ہے ڈائٹ پر ہو
جیا: نہیں سیمی ایسی بات نہیں ہے
دونوں میڈیکل کالج کی کینٹین میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں، دونوں کا کالیج کا آخری سال تھا سمرن کے گھنگریالے بال اور گول خوبصورت چہرا تھا، جیا کے سنہرے اور سیدھے بال خوبصورت چہرا پر مسکان جیسے کوئی پری ہو۔
سمرن: وہ دیکھو لڑکا کیسے گھور گھور کر دیکھ رہا ہے
جیا : رام کرے یہ اندھا ہو جائے، جیا نے اکھڑے ہوئے لہجے سے کہا
سمرن: ایسا تو نہیں کہتے
جیا: تو کیا کروں اسکے گھر ماں بہن نہیں ہے کیا
سمرن: چلو ہم چلتے ہیں کلاس کا وقت ہو چکا ہے۔
دونوں کلاس میں چلے گئیں اور چھٹی کے بعد دونوں کا ہوسٹل میں ایک ہی روم تھا دونوں اپنے روم میں چلے گئیں، سیمی نے کمرے میں جاتے ہی اپنی کتابیں بے پروائی سے ایک طرف رکھ دیں۔
جیا: سیمی یہ کیا عادت ہے تمہاری، اپنی کتابیں روزانہ اتنی بے پروائی سے کیوں رکھتی ہو؟ علم ہے اس کی عزت کرو، جیا نے غسے سے کہا
سمرن: او اچھا میڈم جی، سیمی نے مسکرا کر جواب دیا
جیا: علم کو اس طرح نہیں پھینکا جاتا بلکہ ادب کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اور یہ حالت دیکھو کمرے کی کیا بنائی ہوئی ہے، جیا نے الجھے ہوئے انداز میں کہا
سمرن: او ۔ کے میری ماں میں ٹھیک کر دیتی ہوں، سیمی نے مسکرا کر کہا، اور پھر مبائل فون میں مصروف ہو گئی
جیا: تمہیں مبائل سے فرصت ملے تو تم کچھ کرو، جیا نے بے حد غسے سے کہا
سمرن: یار آج تمہیں اتنا غسہ کس بات کا آ رہا ہے، چلو کھانا کھانے چلتے ہیں بعد میں کمرا ٹھیک کر لیں گے، سیمی نے مسکراتے ہوئے کہا، پھر دونوں کھانا کھانے چلے گئیں اور کھانا کھا کر کچھ وقت بعد واپس آئیں۔
جیا: اب کمرا تم ٹھیک کرو گی یا میں خود کر لوں
سمرن: یار تم کر لو نا مجھے پڑھائی کرنی ہے سیمی نے بہانہ بناتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے! مجھے پتہ ہے کون سی پڑھائی کرتی ہو تم، جیا نے طنزیہ لہجے سے کہا
سمرن ہستی ہوئی پھر سے فون استعمال کرنے لگ گئی، جیا نے کمرے کی ہر چیز ترتیب سے رکھی اور پھر کتاب لے کر پڑھائی میں مصروف ہو گئی۔
جیا پڑھائی میں بہت ہشیار تھی اور ہوسٹل میں فضول کسی لڑکی سے بات نہیں کرتی تھی اور اسکی دو ہی سہیلیاں تھیں سیمی اور انابیہ، انابیہ بھی انہیں کے ساتھ میڈیکل کالج میں پڑھتی تھی
کچھ وقت بعد انابیہ نے باہر سے دروازہ کھٹکٹایہ۔
سمرن: کون ہے؟
انابیہ: میں انابیہ
سمرن نے دروازہ کھولا اور انابیہ کو اندر بلا کر دروازہ بند کر دیا۔
انابیہ : او ہو میڈم جی پڑھ رہی ہیں
سمرن: انہیں پڑھائی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا، سیمی نے مسکراتے ہوئے کہا
جیا: آؤ انابیہ میں پڑھائی بند کر دیتی ہوں، جیا نے مسکرا کر کہا
انابیہ: نہیں میڈم جی آپ تکلف کیوں کر رہی ہیں، انابیہ نے ہنستے ہوئے کہا
جیا: نہیں نہیں میں بس اب کتاب بند کرنے ہی والی تھی، تم سناؤ کیسی ہو؟
ٹھیک ہوں ! انابیہ نے اداسی سے مدھم سی آواز میں کہا۔۔۔
کیا ہوا ہے؟ تمہارا چہرا کیوں لٹکا ہوا ہے؟ جیا نے فکر مندی سے کہا۔۔۔
انابیہ: نہیں بس یہ پڑھائی کی وجہ سے ہے، بہت مشکل ہے یار پڑھائی
جیا: تو پڑھ لیا کرو سارا دن باتیں یا مبائیل ہی استعمال کرتی رہتی ہو، جیا نے طنزیہ لہجے سے سر کو ہلاتے ہوئے کہا۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
[4/8, 8:59 AM] Nawab Rana Arsalan: ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر ۔ 6
لو میڈم ہو گئی شروع لیکچر دینا، سیمی جو ایک طرف مبائیل پر لگی تھی، ایک دم چونک کر بولی، اور پھر تینوں ہنسنے لگ گئیں۔
انابیہ: یار ہمارا کالیج کا آخری سال ہے اس کے بعد پتہ نہیں میں کہا اور تم لوگ کہا، ہم کالیج کے بعد ملا کریں گے نا؟
جیا: ہاں یار کیوں نہیں، یہ دوستی کبھی ختم نہیں ہوگی۔
سیمی: ہاں ہاں جیا دادی اماں بھی بن گئی نہ پھر بھی تمہیں یا مجھے کال کر کے پوچھا کرے گی کہ " میرا فلاں پوتا بہت تنگ کرتا ہے کیا کروں" سمرن نے مسکرا کر مزاحیہ انداز میں کہا
فضول کچھ بھی، جیا نے چڑ کر کہا
کاش کہ یہ دن کبھی ختم نہ ہوں، انابیہ نے دھیمے لہجے سے کہا
ہممم! زندگی کتنی خوبصورت ہے نا ، جیا اتنا کہہ کر سوچ میں پڑ گئی
تم دونوں کیسی سنجیدہ باتیں کر رہی ہو، اب کیا رلاؤ گی کیا۔ سیمی نے مسکرا کر کہا
تینوں نے کافی دیر تک باتیں کی اور پھر انابیہ اپنے کمرے میں چلے گئی۔
رات کو جب سونے کے وقت سیمی اپنے پلنگ پہ لیٹی ہوئی مبائل استعمال کر رہی تھی اور جیا کھڑکی سے باہر آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
کیا دیکھ رہی ہو، سیمی نے جیا سے پوچھا
یہ ستارے کتنے خوبصورت ہیں، جیا نے تاروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
تمہیں آج پتا چلا کہ تارے خوبصورت ہیں، سیمی نے ہنس کر کہا
میں ہر روز ان کو دیکھتی ہوں ہر شب آسمان پہ ان کا میلا لگتا ہو گا، جیا نے فلسفیانہ انداز سے کہا
سیمی: تم چھوڑو! یہ بتاؤ تم شادی کس سے کرو گی؟
جیا: وہ جو سب سے الگ ہوگا
سیمی: کیا مطلب؟
وہ میرے خوابوں کا شہنشاھ ہے اور میں اسکے خوابوں کی ملکہ، جیا نے دھیمی آواز میں کہا
پہیلیاں کیوں بجھوا رہی ہو صاف صاف بتاؤ وہ کون ہے؟ سمرن نے قدرے تجسس سے پوچھا
وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیا ایک لفظ کہہ کر چپ ہو گئی
یار بتا دو! کیا وہ ؟ تمہیں پتا ہے مجھے کتنی بے تابی ہو رہی ہے، سمرن نے ضدی لہجے سے کہا
اسکو میں نہیں جانتی، پر وہ ۔۔۔ وہ جو اپنے لیے نہ جیتا ہو، سب کے لیے جیتا ہو، جس کی سوچ سب سے الگ ہو، جو ہر راہ میں دیے جلاتا ہو تاکہ لوگ آسانی سے گزر سکیں، وہ ہے ۔۔۔۔۔ وہی ہوگا میرے خوابوں کا شہنشاھ، جیا نے آسمان پہ جگمگاتے ہوئے ستاروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
سمرن: ایسا کس دیس سے ڈھونڈ کر لاؤ گی؟
ڈھونڈنے سے تو کچھ بھی مل جاتا ہے، بس ارادہ پکا ہونا چاہیے، جیا نے مسکرا کر مدھم سی آواز میں کہا
سمرن نے اپنا مبائل رکھا اور اٹھ کر جیا کہ پاس آگئی
اور اگر تم اسکے خوابوں کی ملکہ نہ بنیں تو؟ سمرن نے دلچسپی سے پوچھا
تم ایسا کیوں سوچ رہی ہو؟ جیا نے الجھے ہوئے انداز میں کہا
کیوں کہ خواب ہمیشہ خواب ہی رہتے ہیں، کبھی حقیقت نہیں بنتے، سیمی نے سنجیدگی سے جواب دیا
جیا: اچھا چھوڑو! تم بتاؤ تم کس سے شادی کرو گی؟
میں تو اس سے کروں گی جو مجھے سارا دن گھماتا رہے اور بہت ساری شاپنگ کرائے، سیمی نے ہنس کر جواب دیا۔
جیا: چلو اب رات بہت ہو چکی ہے سو جاتے ہیں
او۔ کے ! سمرن نے چہرے پہ شرارتی سی مسکان لاتے ہوئے کہا
دونوں اپنے اپنے پلنگ پہ لیٹ گئیں اور کچھ وقت بعد جیا سو گئی، سمرن رات دیر تک مبائیل استعمال کرتی رہی
صبح اٹھ کر جیا نے کالیج جانے کی تیاری بھی کر لی تھی اور سمرن اب تک سوئی ہوئی تھی۔
اٹھو سیمی کالج جانے کا وقت ہو چکا ہے، جیا نے سمرن کے چہرے سے کمبل اٹھاتے ہوئے کہا۔
کیا مصیبت ہے؟ اٹھ جاتی ہوں ، سمرن نے قدرے الجھے ہوئے لہجے سے کہا
جیا: روز کلاس میں دیر سے جاتی ہو، پڑھ لو ! نہیں تو امتحان میں ناکام ہو جاؤ گی۔
تم جاؤ میں آتی ہوں، سمرن نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا
اور جیا کالیج چلے گئی اور پھر کافی وقت کے بعد سمرن کلاس میں آئی،
سمرن: مے۔۔ آئی۔ کم ۔ان ۔۔ ٹیچر
ٹیچر : یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟
سمرن: ٹیچر وہ۔۔۔۔
ٹیچر: اب بہانے چھوڑو چلو بیٹھو کلاس میں
سمرن جیا کے ساتھ آکر بیٹھ گئی
آ گئی میڈم!! جیا نے طنزیہ انداز سے کہا
یار تم مجھے وقت پر کیوں نہیں اٹھاتی، سمرن نے مسکرا کر کہا
او۔ ہو۔۔ اب سارا قصور میرا ہے۔۔ ہممم۔۔ کتنی دیر تک تمہیں اٹھاتی رہی ہوں، جیا نے الجھ کر جواب دیا
سمرن: اچھا چھوڑو! یہ بتاؤ آج کالیج کے بعد چلیں بازار خریداری کرنے
جیا: نہیں
سمرن: کیوں
جیا: اب کلاس میں ہو پڑھائی پر دھیان دو بعد میں دیکھیں گے
او ۔ کے ۔ سمرن نے مرجھائے ہوئے انداز سے کہا
کالج کے بعد جب دونوں ہوسٹل میں اپنے کمرے میں گئیں، روز کی طرح پھر سے کمرے کی حالت بکھری ہوئی تھی۔
تم کبھی نہیں سدھر سکتی، جیا نے سمرن کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا
سدھر کر کیا کرنا ہے، سمرن نے مسکرا کر کہا
تم میڈیکل کالج میں پڑھتی ہو، تم ڈاکٹر بنو گی؟ جیا نے قدرے اکھڑے ہوئے لہجے سے کہا
سمرن: یار چھوڑو! یہ بتاؤ میرے ساتھ شاپنگ کرنے چلو گی؟
جیا : نہیں
سمرن: کیوں یار چلو نا
جیا: ٹھیک ہے شام کو چلیں گے
سمرن: او۔کے۔ پھر پہلے ساحل سمندر پر چلیں گے بعد میں شاپنگ کریں گے
اتنا وقت نہیں ہے میرے پاس، جیا نے سخت لہجے میں کہا
یا پلیز.... سمرن نے منت کی
ٹھیک ہے۔۔ جیا نے فوراً ہار مانتے ہوئے کہا
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
[4/8, 9:01 AM] Nawab Rana Arsalan: ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 7
دونوں شام کو ساحل سمندر پر چلے گئیں، ساحل سمندر پر بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے، پانی کی لہریں موج میں تھیں، آسمان پہ سفید ہلکہ ہلکہ بادل تھے، لہریں دونوں کے پاؤں کو آ کر چھو رہیں تھی۔
واؤ کتنا مزہ ہے نا یہاں، سمرن نے ساحل پہ پانی کے اندر چلتے ہوئے کہا
ہاں ! جیا نے مدھم سی آواز سے مختصر سا جواب دیا
سمرن: کیا سوچ رہی ہو؟
یہ پانی کی لہریں کتنی مستی میں ہیں نا، شائید بہت خوش ہیں، سیمی زندگی کتنی حسین ہے نا، جیا نے سمرن کو پکارتے ہوئے فلسفیانہ انداز سے کہا۔
ایک تو مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی، سمرن نے مسکرا کر کہا۔
جیا: تم مجھے سمجھ کر کیا کرو گی؟
سمرن: ہاں یہ بات بھی ہے
جیا: چلو اب چلتے ہیں
اتنی جلدی ابھی تو آئے ہیں، سمرن نے الجھے ہوئے لہجے سے کہا
جیا: تو شاپنگ نہیں کرنی کیا؟
سمرن: ہاں تو تھوری دیر بعد چلتے ہیں نا۔
ٹھیک ہے! جیا نے فوراً ہار مانتے ہوئے کہا
پھر دونوں کچھ وقت بعد خریداری کر کے واپس آ جاتی ہیں۔
سمرن: یار میں بہت تھک گئی ہوں
کیا؟ تم صرف شاپنگ کر کے تھک گئی ہو؟ جیا نے حیرانگی سے پوچھا
ہاں ! سمرن نے اپنا فون اٹھاتے ہوئے مختصر سا جواب دیا
چلو ! اب ہوگئی مبائل کی ڈیوٹی شروع، جیا نے مسکرا کر کہا
کچھ دن ایسے ہی گزر جاتے ہیں، پھر دیوالی کا تہوار آ جاتا ہے، دونوں دیوالی منانے اپنے اپنے گھر چلی جاتی ہیں۔
ماما کہاں ہیں آپ؟ جیا نے اپنے گھر پہنچ کر جب سحن میں کسی کو نہیں پایا تو بلند آواز سے کیا۔
مدھو( جیا کی امی) کمرے سے بیتابی سے بھاگ کر آئی اور جیا کو گلے لگا لیا
جیا: کیسی ہیں ماما آپ؟
مدھو: میں ٹھیک ہوں بیٹا تم سناؤ؟
جیا: میں بھی ٹھیک ہوں، پاپا کہاں ہیں؟
مدھو: تمہارے پاپا آتے ہی ہوں گے
اتنی دیر میں اکاش (جیا کا چھوٹا بھائی) سیڑیوں سے اترتے ہوئے زور سے چلایا، او۔۔۔ آپی آئی ہیں۔۔۔ اور بھاگ کر جیا سے ملنے آئے گیا۔
مدھو: چلو تم کمرے میں بیٹھو میں تمہارے لئے پانی لے کر آتی ہوں۔
اکاش اور جیا دونوں کمرے میں چلے گئے اور مدھو بھی پانی لے کر آگئی پھر تینوں میں باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کچھ وقت بعد راجیش (جیا کے پاپا) آئے، جیا جو سوفے پر بیٹھی باتوں میں مصروف تھی پاپا کو دیکھ کر خوشی سے اٹھی اور اپنے پاپا کے گلے لگ گئی، جیا کے پاپا بھی بہت خوش تھے آخر ان کی لاڈلی بیٹی آئی تھی۔
رات کو بارش کا موسم دیکھ کر جیا چھت پر چلے گئی، اندھیری رات تھی، آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا، بادل بہت تیز گرج رہے تھے، بادلوں کی گھن گرج کے ساتھ بجلی بھی چمک رہی تھی، پھر اچانک سے بارش آنا شروع ہو گئی، جیا بارش میں باہیں پھلا کر جھومنے لگ گئی، خوبصورت سنہرے بال بارش کی بوندوں سے بھیگ چکے تھے، اور خود بھی بارش سے بھیگ چکی تھی، خوبصورت رنگت اور چہرے کی مسکان بھیگ کر اور بھی زیادہ دل کش ہو چکی تھی، بارش آستہ آستہ تیز ہو رہی تھی جیا کو بارش میں بھیگنا اچھا لگتا تھا، اور وہ خوشی سے جھوم رہی تھی، اتنی دیر میں پیارے سے لہجے کی آواز جیا کہ کانوں میں پڑتی ہے "جیا بیٹا بیمار پڑ جاؤ گی اب چلو نیچے" جیا مڑ کر دیکھتی ہے، وہ اسکی ماما ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔ اچھا ماما آ۔۔۔۔ آتی ہوں ماما، جیا نے سردی سے کامپتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔کب آؤ گی بیٹا ٹھند لگ جائے گی، مدھو نے قدرے فکر مندی سے کہا۔
جیا جو بارش سے مکمل بھیگ چکی تھی، اپنے کمرے میں آکر کپڑے تبدیل کیے اور پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گئی۔ تیز بارش ابھی بھی تھمی نہیں تھی، جیا کے سنہرے بال ابھی بھی بھیگے تھے وہ ایک کرسی پر بیٹھی بارش کے نظارے دیکھ رہی تھی۔ کچھ وقت کے بعد وہ وہیں پر سامنے رکھے میز پر سر رکھ کر سو جاتی ہے۔
اور صبح جب کھلی کھڑکی سے سورج کی کرنے اس کی آنکھوں پہ پڑتی ہیں تو اس کی آنکھ کھلتی ہے، اور وہ حیرانگی سے دل ہی میں سوچتی ہے کہ "میں رات یہیں پر سو گئی تھی، کتنی عجیب بات ہے مجھے پتہ بھی نہیں چلا"۔
جیا فریش ہو کر جب باہر آتی ہے تو سب دیوالی کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔
جیا اپنے گھر کے سحن میں ایک طرف شری کرشنا مندر میں جا کر پوجا کرتی ہے اور پھر پوجا کے بعد وہ بھی دیوالی کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔
دیوالی ہندو مزہب کا تہوار ہے
دیوالی (جسے دیپاولی اور عید چراغاں بھی کہا جاتا ہے) کا تیوہار روحانی اعتبار سے اندھیرے پر روشنی کی، نادانی پر عقل کی، برائی پر اچھائی کی، اور مایوسی پر امید کی فتح کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
دیوالی کا تیوہار اماوس کی رات کو منایا جاتا ہے۔
یہ تیوہار دھنتیراس سے شروع ہوتا ہے، دوسرے دن ناراکا چتردسی منائی جاتی ہے، تیسرے دن دیوالی، چوتھے دن دیوالی پاڑوا، جو کہ شوہر بیوی کے رشتے کے لیے مخصوص ہے، اور پانچویں دن بھاوبیج (بھائی دج) جو کہ بھائی بہن کے رشتے کے لیے مخصوص ہے۔ اس طرح یہ تیوہار اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[4/8, 9:02 AM] Nawab Rana Arsalan: ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 8
رات کو دیوالی کی سب تیاریاں مکمل ہو جاتی ہیں، ہر کسی نے نئے کپڑے پہنے، گھر کو چراغوں سے سجایا گیا، ہر طرف دیے جلا کر روشن کیا گیا، مختلف شکلوں کے چراغ جلائے گئے، گھر کے اندر اور باہر گلی میں بھی دیے جلائے گئے۔
پھر سب نے مل کر دیوی لکشمی کی پوجا کی اور اس کے بعد آتش بازی بھی کی گئی۔
زندگی کتنی حسین ہے نا، جیا گھر کے سحن میں کھڑی روشن چراغوں کو دیکھ کر دل ہی میں کہہ رہی تھی۔
اب وقت ہے
سمجھ جاؤ
زندگی کتنی حسین ہے
اسے روشن کر چراغوں سے
کسی مفلِس کی دہلیز پہ
اک دیا جلا خوشیوں کا
ہر شہر سے بستی تک
ہر بستی سے گلی تک
ہر گلی سے دہلیز تک
دیے جلاؤ
اب وقت ہے
زندگی کتنی حسین ہے
اس روشن کر چراغوں سے
نواب رانا ارسلان
آپی۔۔ آپی ، جیا جو چراغوں کو دیکھتے ہوئے ایک عجیب سی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی اکاش کے پکارنے سے ایک دم چونک گئی، آپی کیا ہوا؟ آؤ نا پٹاخے پھوڑیں
جیا: نہیں تم جاؤ میرا من نہیں ہے
اکاش جیا کے کہنے پہ چلا گیا
اور جیا پھر سے اپنے خیالوں میں گم ہو گئی۔
پتہ نہیں کہاں ہوگا، دکھنے میں کیسا ہوگا، اسکی آواز کیسی ہوگی، وہ۔۔۔۔ وہ جو میرے خوابوں کا شہنشاہ ہوگا، جیا دل ہی میں کہہ رہی ہوتی ہے اور پھر اچانک سے اسے سمرن کی بات یاد آ جاتی ہے کہ "خواب کبھی حقیقت نہیں بنتے" نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، اے رام جی پلیز میرے خوابوں کو حقیقت کا رنگ ضرور دینا، جیا دل ہی میں دعا کرتی ہے۔
دیوالی کی سب رسومات مکمل ہونے کے بعد وہ اپنے ہوسٹل جانے کے لیے تیار ہوتی ہے، گھر والوں کو جیا بہت پیاری ہوتی ہے اس لیے سب کے چہروں پہ اداسی سی چھا جاتی ہے، خیر پڑھائی کے لیے جیا کا جانا تو لازم تھا۔
جیا کی ماما جیا کو بہت ساری دعاؤں سے رخصت کرتی ہیں اور جیا اپنے ہوسٹل جانے کے لیے گھر سے نکل جاتی ہے۔
ہوسٹل میں جیا اور سمرن دونوں کچھ دن تک اداس رہتی ہیں، کیوں کہ انہیں دیوالی کے دن یاد رہتے ہیں، آستہ آستہ پھر دونوں ماحول بہترین بنا لیتی ہیں۔
جیا اکیلی کالیج کی سیڑیوں پہ بیٹھی ہوتی ہے
تم یہاں اکیلی کیا کر رہی ہو؟ سمرن نے جیا کے پاس آکر بیٹھتے ہوئے کہا۔
کھلی آنکھوں سے خواب دیکھ رہی ہوں، جیا نے مسکرا کر کہا
او۔ ہو۔۔ ہمیں بھی تو بتاؤ کس کے خواب دیکھ رہی ہو؟ سمرن نے شرارتی لہجے سے کہا
ضروری تو نہیں کہ کسی شخص کے ہی خواب دیکھے جائیں، اور بھی بہت کچھ ہے دنیا میں جسے ہم خوابوں میں دیکھ سکتے ہیں، جیا نے سمرن کی طرف گردن موڑتے ہوئے کہا۔
اچھا جی ! سمرن نے مسکرا کر کہا
کالیج کی چھٹی کے بعد دونوں ہوسٹل جا رہی ہوتی ہیں، راستے میں ان کو کچھ لڑکے چھیڑتے ہیں اور دونوں ڈر کر وہاں سے بھاگ کر ہوسٹل چلے جاتی ہیں۔
دونوں ڈری اور سہمی سہمی سی تھیں اور کچھ وقت کے بعد انابیہ ان کے کمرے میں آتی ہے۔
تم دونوں کو کیا ہوا؟ انابیہ نے حیرانگی سے پوچھا
کچھ نہیں۔ جیا نے سہمے ہوئے لہجے سے کہا
بتاؤ یار ہوا کیا ہے؟ انابیہ نے اپنا سوال پھر سے دہرایا
وہ۔۔۔ وہ باہر کچھ لڑکے ہمیں تنگ کر رہے تھے، سمرن نے کپکپاتے ہوئے لہجے سے کہا
کہاں؟ کون تھے وہ لوگ؟ انابیہ نے حیرانگی سے پوچھا
راستے میں تھے پتہ نہیں کون تھے، سمرن نے جواب دیا
تم فکر مت کرو الله تعالی ان کو عقل دے، انابیہ نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
یہ زندگی بہت حسین ہے۔ لیکن ایسے لوگ اسے بد ترین کیوں بنا دیتے ہیں، جیا نے کھڑکی سے باہر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ڈونٹ وری۔۔ الله تعالی ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا، انابیہ جیا کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھو سیمی کالج جانے کا وقت ہو چکا ہے، اگلے دن صبح جیا سمرن کو کالیج جانے کے لیے اٹھاتی ہے۔
تم جاؤ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، سمرن نے دھیمی آواز میں کہا
کیوں کیا ہوا؟ جیا نے فکر مندی سے پوچھا
سر میں درد ہے، سمرن نے سر پکڑتے ہوئے جواب دیا
اوہ ۔۔ تمہیں تو بخار بھی ہے، جیا نے سمرن کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
سمرن: ہمممم
جیا: او ۔کے میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہوں
سمرن: نہیں تم جاؤ میں دوا لے لوں گی۔
لیکن میں تمہیں بخار کی حالت میں کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہوں، جیا نے قدرے فکر مندی سے کہا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں