اتوار، 5 اپریل، 2020

ناول چراغ جلاتے چلو دوسری قسط

ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 2 
ہنس راج: اس میں تکلف کی کیا بات ہے تم اس صحرا کے مہمان ہو تمہاری خدمت کرنا میرا فرض ہے۔
ازرق: لیکن بارش کے انتظار میں میں کب تک تمہارے پاس رہو گا؟ بارش کا کیا پتہ کب آئے۔
ہنس راج: تم ساری عمر میرے پاس رہ سکتے ہو مجھے کوئی مسلہ نہیں، بلکہ تم میرے پاس ہی رہو گے ہنس نے بے تکلف ہو کر ضدی انداز میں کہا۔
ازرق: ٹھیک ہے تمہاری بات مان لیتے ہیں ازرق نے مسکرا کر جواب دیا۔
پھر دونوں ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگ گئے، بس ایک اسٹاپ پہ رکی ہنس نے کہا چلو ہماری منزل آ گئی، دونوں وہاں پر اتر جاتے ہیں۔
ازرق : یہ تمہارا گاؤں ہے؟
ہنس راج: نہیں یہ میرا گاؤں نہیں میرا گاؤں یہاں سے 3 کلو میٹر دور ہے، یہ بھالوہ ہے شائید تم نے سنا ہوگا۔
ازرق: نہیں میں نے نہیں سنا۔
ہنس راج: یہاں پہ ماروی کا کنوا ہے۔
ازرق: او اچھا ! مجھے بہت تمنا ہے ماروی کا کنوا دیکھنے کی۔
ہنس راج: چلو آج تمہاری یہ تمنا بھی پوری ہو جائے گی میرا گاؤں بھی اسی طرف ہے، ہنس نے مسکرا کر کہا۔
پھر دونوں اپنی منزل کی طرف چلنے لگے، شام ہو چکی تھی غروب آفتاب کا وقت قریب تھا، دونوں ایک ٹوٹی ہوئی سڑک پر پیدل اپنی منزل کی جانب رواں تھے کچھ سفر کے بعد دونوں ماروی کے کنویں پر پہنچ گئے ہنس نے ازرق کو بتایا کہ یہ ماروی کا کنوا ہے، جہاں بہت بڑی چار دیواری اور اندر چار پانچ کٹیا تھیں، لوہے کا دروازہ تھا دروازے کے باہر ایک شخص اپنی ڈاچی لیے بیٹھا تھا، جو ہر گھومنے والے کو بلاتا اور کہتا کہ آؤ ڈاچی پہ بیٹھ کر تصاویر بنا لو، ڈاچی پر بہت ہی بناؤ سنگھار کیا ہوا تھا۔ دونوں دروازے سے اندر داخل ہوئے سامنے ہی کنوا تھا جسے ماروی کا کنوا کہا جاتا ہے جو پارکر کے پتھروں سے بنا ہوا تھا۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک بورڈ پر ماروی کلچر سینٹر لکھا ہوا تھا۔ کنویں سے کچھ مقامی لوگ پانی بھر رہے تھے کنویں کے ایک طرف چند قدموں پہ 4، 5 کٹیا تھیں جو بہت ہی خوبصورت بنائی ہوئی تھیں، دونوں ایک کٹیا کے اندر داخل ہوئے کیوں کہ غروب آفتاب کا وقت تھا اس لیے کٹیا کے اندر اندھیرا تھا ہنس نے مبائل کی ٹارچ آن کی جس سے روشنی ہوئی ، کٹیا کے اندر ایک طرف ماروی کی مورتی اور دوسری طرف شائید عمر سومرو کی مورتی تھی اور کچھ پیتل کے برتن تھے اور ایک کرتا تھا جس میں شیشے لگے ہوئے تھے 
ازرق نے حیرانگی سے پوچھا یہ کس کے ہیں؟
ہنس راج: یہ ماروی کے ہیں برتن بھی اور کرتا بھی۔
ازرق ان کٹیا اور کنویں کو دیکھ کر عجیب سوچ میں پر گیا۔
ہنس راج: کیا سوچ رہے ہو؟
ازرق: کیا ماروی کو علم تھا کہ اس کی یاد میں لوگ برسوں بعد بھی اسے یاد رکھیں گے، اور اس طرح کی شاندار اور خوبصورت کٹیا بنا دیں جائیں گی، اس کی مورتی بنا دی جائے گی اور لوگ دور دور سے آ کر اس کی مورتی اور اس کنویں کو دیکھیں گے کتنا عجیب ہے نا۔
ہنس راج: چلو اب چلتے ہیں ورنہ کیا پتہ تم واپس ماروی کے زمانے میں لوٹ جاؤ ہنس نے مسکرا کر کہا۔
پھر سے دونوں اپنی منزل کی طرف چل دیے، سورج غروب ہو چکا تھا ہنس راج کے گاؤں کا راستہ کچہ تھا، ریت پہ چلنا مشکل تھا، ہنس تو ان راستوں پہ چلنے کا عادی تھا لیکن ازرق کے لیے یہ راستہ بہت کٹھن تھا۔
پیلو اور کنڈی کے درخت (جسے سانگر یا جنڈی کا درخت بھی کہا جاتا ہے) اور کھپ کی جھاڑیاں بہت ہی خوفناک منظر پیش کر رہیں تھی ازرق دل ہی میں سوچ رہا تھا کہ یہ ہنس مجھے پتا نہیں کہا لے آیا ریت کا ایک بہت بڑا ٹیلا پار کر کہ ہنس کے گاؤں جانا تھا، جس کو پار کرتے کرتے ازرق تو تھک گیا تھا ہنس ازرق کو دلاسا دیتا رہا کہ بس اب قریب ہی ہے، اتنا کٹھن راستہ عبور کر کے آخر وہ اپنے گاؤں پہنچ گئے، چھوٹا سا گاؤں تھا جس میں صرف چند گھر تھے۔
ہنس راج: لو ہم پہنچ گئے ہنس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ازرق: شکر ہے الله تعالی کا ازرق نے بلند آواز میں کہا۔
ہنس کے گھر سے تھوڑا ہی دور ایک کٹیا بنی ہوئی تھی، جس کے چاروں طرف کانٹوں کی دیوار بنی ہوئی تھی۔
ہنس راج: یہ ہمارا مہمان خانہ ہے ہنس نے مسکرا کر کہا۔
ازرق: یہ گاؤں سے دور کیوں بنائی ہے؟
ہنس راج مسکرایا اور اطاء الله کا گانا گن گنانے لگ گیا ۔۔
"جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہر جائی ہے
اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے 
اور اس کٹیا کے ماتھے پہ لکھوایا ہے 
سب مایہ ہے ، سب مایہ ہے
ازرق: واھ تم تو بہت اچھا گا لیتے ہو تم گلوکار کیوں نہیں بن جاتے
ہنس راج: سوچیں گے ہنس نے مسکرا کر جواب دیا۔
ازرق: اس گاؤں کا نام کیا ہے؟
ہنس راج: پرتاب سنگ کی دھانی، پرتاب سنگ میرے دادا کا نام تھا۔
ازرق: اب اندر لے کر جاؤ گے یا یہیں پر بٹھاؤ گے، ازرق نے مسکرا کر کہا
ہنس راج: ہاں چلو اندر 
ہنس ازرق کو اندر لے جاتا ہے اور کٹیا سے ایک چار پائی لا کر باہر سحن میں رکھتا ہے اور کہتا ہے تم بیٹھو میں پانی لے کر آتا ہوں۔
اب بلکل اندھیرا ہو چکا تھا ازرق چارپائی پہ اکیلا ایک انجان جگہ میں بیٹھا ہوا تھا مہمان خانے کے باہر گھنی جھاڑیاں تھیں اور تیز آندھی جیسی ہوا چل رہی تھی مہمان خانے کا سحن بڑا تھا ایک طرف ایک نیم کا درخت تھا جس سے ہوا ٹکڑا کر سر سر سی خوفناک آواز آ رہی تھی گاؤں سے موروں کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں، ازرق اتنے خوفناک منظر میں اکیلا گھبرا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ہنس پانی لے کر آتا ہے اور بڑے ادب کے ساتھ پانی پیش کرتا ہے اور ازرق کا سامان اٹھا کر کٹیا میں رکھ دیتا ہے اور ایک اور چارپائی نکال کر بیٹھ جاتا ہے، ایسے ہی باتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کچھ وقت بعد ہنس راج کے والد اور چھوٹا بھائی کھانا لے کر آتے ہیں۔ ہنس راج ازرق سے اپنے والد اور بھائی کا تعارف کرواتا ہے۔
ہنس راج: یہ میرے بابا رام سنگ جی اور چھوٹا بھائی راج کمار ہے۔ 
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔Api:1
.Next
.
.ناول کی دنیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں