ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 4
کچھ وقت بعد دونوں کھانا کھا کر لیٹ جاتے ہیں اور باتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ازرق۔ آج بہت تھک گیا ہوں
ہنس راج: ابھی تو بہت گھومنا ہے، ہنس نے مسکرا کر کہا۔
ازرق: تم اتنا مسکراتے کیوں ہو؟
ہنس راج: کیوں تمہیں اچھا نہیں لگتا؟
ازرق: نہیں ایک تو تم ہو بہت خوبصورت دوسرا جب مسکراتے ہو تب اور بھی اچھے لگتے ہو، کاش کہ تم لڑکی ہوتے ازرق نے ہنس کر کہا۔
اور پھر دونوں ہنسنے لگ جاتے ہیں۔
ازرق۔ چلو کوئی گانا ہی سنا دو جناب
ہنس نے اپنی پیاری آواز سے میڈم نور جہاں کا گانا گایا
"آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی
ازرق: واھ کیا بات ہے تم اتنے پرانے گانے کیوں گاتے ہو؟
ہنس راج: پرانے گانے مجھے پسند ہیں اور ویسے بھی انگریزی میں کہتے ہیں نا اولڈ از گولڈ۔ ہنس نے مسکرا کر جواب دیا۔
اور پھر باتیں کرتے کرتے سو جاتے ہیں، اسی طرح تین چار دن گزر جاتے ہیں۔
پھر ایک دن بہت گرمی تھی، اوپر کالے بادل چھائے ہوئے تھے، ازرق اور ہنس دونوں پارکر کے ایک گاؤں کاسبو میں گھومنے گئے تھے، شدید گرمی میں ازرق کا بڑا حال تھا اتنی دیر میں بارش کی ایک بوند ازرق کے ہاتھ پر آ گڑی ازرق کی خوشی ایسی تھی جیسی اس صحرا کے مقامی لوگوں کی بارش آنے پہ خوشی ہوتی ہے۔ پھر اچانک سے بارش آنے لگی تیز بارش میں دونوں بھیگ چکے تھے اور ان کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔
ازرق: شکر ہے الله تعالی کا کہ بارش آئی
ہنس راج: تم تو مجھ سے بھی زیادہ خوش لگ رہے ہو
ازرق: ہاں اس بارش کا تو مجھے بہت انتظار تھا۔
پھر کچھ وقت بعد بارش تھم گئی، لوگوں میں خوشی کی لہر تھی، بھیڑ بکریاں اور سارے پرندے خوشی میں جھوم رہے تھے۔ مور خوبصورت رقص کر رہے تھے، موروں کا خوبصورت رقص دیکھ کر ازرق بہت خوش تھا، بارش کے بعد ہلکی ہلکی تازہ ہوا چل رہی تھی، درخت اور جھاڑیاں بارش سے نکھر کر بہت خوبصورت لگ رہیں تھی۔
ازرق: کتنا خوبصورت منظر ہے نا لوگ کتنے خوش ہیں ہر جانور خوشی کے گیت گا رہا ہے، مور کیسے جھوم رہے ہیں اور چڑیاں خوشی سے چہک رہیں ہیں شائید خدا کا شکر ادا کر رہیں ہیں۔
ہنس راج: ہاں ایسا ہی ہے
اور دونوں پھر وہاں سے لوٹ جاتے ہیں، اپنے گاؤں پہنچتے پہنچتے رات ہو جاتی ہے، رات کا کھانا کھا کر دونوں روز کی طرح باتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
ہنس راج: تم صحافت کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرتے؟
ازرق: یہ کام کم ہے کیا؟
ہنس راج: نہیں میرا مطلب ہے اس میں تم کماتے کیا ہوگے آزاد ہو کوئی تو آمدنی ہوگی تمہاری
ازرق: ہاں بابا کا اچھا کاروبار ہے، میں کمانا چاہتا ہوں لیکن مجھے وقت نہیں ملتا۔
ہنس راج: آخر تم گھومنے کے سوا کرتے کیا ہو جو تمہیں وقت نہیں ملتا، ہنس نے مسکرا کر کہا۔
ازرق: ابھی کیوں کہ یہاں نیٹ نہیں چلتا اس لیے مبائل فون استعمال نہیں کرتا، نہیں تو سارا دن مبائل استعمال کرتا ہوں۔
ہنس راج: کیوں اتنا مبائل کیوں استعمال کرتے ہو؟ کیا کرتے ہو مبائل پر؟
ازرق: شوشل مڈیا پر غریبوں کی آواز بنتا ہوں
ہنس راج: او ہو شوشل مڈیا پر کون سنتا ہوگا تمہاری
ازرق: شوشل مڈیا میں بہت طاقت ہے کبھی تو کوئی سنے گا۔
ہنس راج: اس سے تمہیں کیا فائدا؟
ازرق: ہر کام فائدے کے لیے نہیں کیا جاتا، انسانیت کے لیے بھی کچھ کرنا پڑتا ہے اور لوگوں کے کام آنا مجھے اچھا لگتا ہے، میں چاہتا ہوں ہر گھر میں خوشیوں کے چراغ جلتے رہیں۔
ہنس راج: اچھا تو شوشل ورکر ہو
ازرق: کوشش کرتا ہوں بننے کی ازرق نے مسکرا کر جواب دیا
ہنس راج: کاش کہ ہمارے حکمران بھی تمہاری جیسی سوچ رکھتے۔
ازرق: حکمرانوں کو اپنے تخت سے اٹھنے کی فرصت ہی کہا۔
ہنس راج: ہممم! پتھر سے چَکی بَھلی پیس کھائے سَنسار ۔
ازرق: تم نے یہ مثالیں کہا سے سیکھیں ہیں؟
ہنس راج: شوشل مڈیا سے، ہنس نے ہنس کر جواب دیا
پھر دونوں باتیں کرتے کرتے سو گئے۔
کچھ دن بعد مسلا دار بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، دونوں نگر گھومنے کے لیے نکل پڑے نگر کی پہاڑیوں سے بارش کا پانی لہروں کے زریعے ایک ندی میں آرہا تھا، ندی میں تیزی سے پانی چل رہا تھا دونوں ندی کے کنارے کھڑے مناظر دیکھ رہے تھے، پانی کی لہریں دونوں کے پاؤں سے ٹکراتی اور ازرق ایک پتھر پر بیٹھ کر پانی میں ہاتھ ہلاتا اور پر کشش منظر دیکھ کر سوچ میں ڈوپ گیا۔
ہنس راج: او دیوانے کون سی سوچ میں دوبے ہو؟ ہنس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
ازرق : نہیں کچھ نہیں! ازرق نے دھیمی آواز میں کہا
پھر دونوں راڑکووہ کی طرف چل دیے، راڑکووہ میں ایک پہاڑ کو تراش کر اس پر ایک گھوڑے اور ایک شخص جو گھوڑے کے اوپر بیٹھا ہوا تھا مورت بنی ہوئی تھی۔ اور ایک عجیب سی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا ، ازرق نے حیرانگی سے ہنس سے پوچھا یہ کس کی مورت ہے اور یہ کون سی زبان ہے؟
ہنس راج: زیادہ مجھے معلوم نہیں پر کہا جاتا ہے کہ یہ راجپوتوں کے زمانے میں تراشا گیا تھا، اور اس پر دیوا نگری زبان میں کسی مرے ہوئے شخص اور اس کی موت کی وجہ لکھی ہوئی ہے۔
اس کے بعد دونوں وہاں سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔..Next
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں