ناول
چراغ جلاتے چلو
از۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 1
60 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بس جا رہی تھی ٹوٹے ہوئے شیشوں سے ہوا ایسے آ رہی تھی جیسے بس بہت ہی زیادہ رفتار میں ہو ، سیٹوں سے زیادہ لوگ کھڑے اور اوپر چھت پر بیٹھے ہوئے تھے، بس میں حد سے زیادہ شور اور سگریٹ کا دھواں تھا، بس ایک بہترین روڈ پر چل رہی تھی اور دونوں اطراف ریت کے بڑے بڑے ٹیلے تھے۔ ازرق اتنے شور میں ایک سیٹ پر بیٹھا کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ لوگ یہاں کیسے سفر کر لیتے ہیں۔ بس ہر 5 سے 7 منٹ بعد کسی اسٹاپ پہ رکتی اور کچھ لوگ اپنی منزل پر اترتے اور کچھ نئے مسافر چڑھ جاتے۔ سگریٹ کے دھویں سے ازرق کا سر درد کرنے لگ جاتا ہے اور وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا پھر اسے خیال آتا کہ باہر کے مناظر دیکھوں اور وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ جاتا، جہاں کہیں لوگ اپنی جھومپڑیوں میں بیٹھے ہوتے، کہیں پہ کوئی کنویں سے پانی نکال رہا ہوتا تو کہیں پہ کوئی درختوں کے پتے کاٹ کر بکریوں کو دے رہا ہوتا اور کہیں پہ اونٹ خود اپنا پیٹ بھرنے کے لئے درختوں کے پتے کھا رہے ہوتے۔ اس صحرا میں جانوروں کے کھانے کے لیے صرف درختوں کے پتے ہی تھے۔
لوگوں کے ساتھ ساتھ یہاں جانوروں کے دل میں بھی بارش کی اُمنگ ہوگی ، ازرق دل ہی میں سوچ رہا تھا۔ ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں میں ایک بہت ہی خوبصورت شہر بسا ہوا تھا، جہاں کے شہری دکھنے میں کافی پڑھے لکھے لگ رہے تھے۔ شہر کے بس اسٹاپ پہ بس جا کر رکی اور کچھ مسافر وہاں پر اتر گئے ۔ بس مٹھی بس اسٹاپ پہ رکی تھی ازرق کی منزل ابھی بہت دور تھی وہ دل ہی میں سوچ رہا تھا کہ پتا نہیں کب یہ سفر ختم ہوگا۔ بس رکنے کے ساتھ ہی تین چار بچے بس میں آئے جن میں سے کوئی پانی بیچ رہا تھا کوئی جوس اور کوئی سموسے بیچ رہا تھا ان بچوں کی زیادہ عمر نہیں تھی، ازرق دل ہی میں سوچ رہا تھا کہ، یہ بچے پڑھتے کیوں نہیں کیا یہ اتنے بے بس ہیں کہ پڑھنے کی عمر میں یہ اپنا پیٹ پالنے کی خاطر بسوں میں مختلف اشیاء بیچ رہے ہیں۔ اتنی دیر میں ایک بچہ ازرق کے پاس آکر کہنے لگا ، صاحب پانی لے لو 20 روپے کی بوتل ہے گرمی کافی ہے لے لو۔ ازرق نے جواب میں کہا تم پڑھتے کیوں نہیں ؟ بچے نے مسکرا کر جواب دیا پڑھنے کے لیے کتابیں چاہیے اور ہمیں دو وقت کا کھانا بھی پانی بیچ کر ملتا ہے۔ ازرق نے بچے سے پانی لے لیا اور پھر سوچ میں ڈوب گیا کہ کیا یہی ان بچوں کا نصیب ہے۔
اتنی دیر میں بس کا چلنے کا وقت ہو جاتا ہے اور ازرق کے پاس ایک نوجوان لڑکا آکر بیٹھ جاتا ہے جو ازرق کی طرف غور سے دیکھتا ہے، ازرق دل ہی میں سوچتا ہے کہ اسے پتا نہیں میرے اندر کیا نظر آیا جو اتنی غور سے دیکھ رہا ہے۔ ازرق اسے بڑے ادب کے ساتھ سلام پیش کرتا ہے اور وہ سلام کا جواب دیتا ہے اسی طرح باتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
تم کہا جا رہے ہو ؟ لڑکے نے سوال کیا
ازرق نے جواب دیا میری منزل کا مجھے پتا نہیں بس اتنا جانتا ہوں کہ پارکر جانا ہے
اچھا پارکر کیا کرنے جا رہے ہو؟ لڑکے نے سوال کیا
ازرق : مجھے پہلی بارش میں مور کو ناچتے دیکھنا ہے
لگتا ہے دیوانے ہو خیر میرا نام 'ہنس راج" ہے ہنس راج نے مسکرا کر جواب دیا
ازرق: ماشااللہ بہت اچھا نام ہے
ہنس راج: تم کرتے کیا ہو ؟
ازرق : میں ایک صحافی ہوں، آزاد صحافی
ہنس راج : اسی لیے آزاد گھوم رہے ہو، ہنس نے مسکرا کر کہا
ازرق: ہاں ویسے کہنے کو آزاد ہوں لیکن آزادی سے بہت دور ہوں، ازرق نے مایوسی سے دھیمی آواز میں کہا۔
ہنس راج: اتنے مایوس کیوں ہو؟ ہمارے نام کے ساتھ آزاد لگتا ہے کیا یہ کافی نہیں؟
ازرق : کیا اتنا تمہارے لیے کافی ہے ؟
ہنس راج : میرے لیے تو کافی ہے
اتنی دیر میں بس چلنے لگ جاتی ہے۔ شہر سے باہر پھر سے ریت کے بڑے بڑے ٹیلے آ جاتے ہیں اور پھر سے وہی مناظر نظر آتے ہیں جو ازرق پیچھے چھوڑ آیا تھا۔
ازرق کھڑکی سے باہر جانوروں کو دیکھتا ہے اور کہتا جب بارش آتی ہوگی ان جانوروں کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانا ہی نہیں ہوتا ہوگا، شائید اسی لیے مور پہلی بارش میں رقص کرتے ہونگے، کیا ہی خوبصورت منظر ہوتا ہوگا نا، ہنس راج نے ازرق کی طرف حیرانگی سے دیکھا اور دل ہی میں سوچا کہ یہ تو بہت بڑا دیوانا ہے۔
ہنس راج : ہاں بارش کے مناظر تو یہاں بہت خوبصورت ہوتے ہیں، ویسے تمہارا نام کیا ہے؟
ازرق : ازرق
ہنس راج: او اسی لیے تم دیوانے ہو تم میں اتنی محبت بھری ہے۔ ہنس نے مسکرا کر کہا
ازرق : میرے نام کے ساتھ محبت کا کیا تعلق ہے؟ ازرق نے حیرانگی سے پوچھا
ہنس راج: ازرق کا مطلب نیلا ہوتا ہے اور محبت کا رنگ بھی نیلا ہوتا ہے۔
ازرق: تم کیا جانتے ہو محبت کے بارے میں کیا ہوتی ہے محبت؟
ہنس راج: میں ہنس راج ہوں رانجھا نہیں ، ہنس نے مسکرا کر جواب دیا اور دونوں مسکرانے لگ گئے پھر دونوں خاموش ہو گئے۔
ازرق پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ کیا اور دل ہی میں سوچ رہا تھا کہ یہ زمین کتنی خشک ساز ہے جیسے برسوں سے پیاسی ہو۔
بس میں لوگوں کے شور سے تنگ آکر ازرق نے ہنس سے کہا کہ یہاں اتنا شور کیوں ہے؟
ہنس راج: کیوں تمہارے علاقے میں لوگ گونگے ہوتے ہیں؟ ہنس نے مسکرا کر کہا
ازرق: نہیں مجھے خاموشی پسند ہے
ہنس راج: بس میں یہاں کے لوگ ایک دوسرے سے دنوں بعد ملتے ہیں اور پھر اپنی اِدھر اُدھر باتیں کرتے ہیں کوئی بارش آنے کی پیشگوئی کرتا ہے، کوئی اپنے گائوں کے قصے سنانے لگ جاتا ہے اور کوئی اپنی بھیر بکریوں کی کہانیاں سناتا ہے۔ اچھا تم پارکر میں کہا رہو گے؟
ازرق: نگر کے کسی ہوٹل میں رہ لوں گا۔
ہنس راج: ہوٹل میں تو تمہیں پہلی بارش میں مور کا رقص دیکھنے کو نہیں ملے گا، اس کے لیے تمہیں کسی گاؤں میں رہنا پرے گا۔
ازرق: گاؤں میں ہوٹل نہیں ہوتے
ہنس راج: ہاں اب تمہیں بہترین کمرہ تو نہیں مل سکتا ہنس راج نے مسکرا کر جواب دیا
ازرق: نہیں میں کٹیا میں بھی رہ سکتا ہوں
ہنس راج : تو چلو پھر میرے گاؤں۔
ازرق: نہیں میں تمہیں تکلف نہیں دے سکتا۔
جاری ہے ۔۔۔Next
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں