تعلیم بنیادی حق
تحریر: نواب رانا ارسلان٬ اسماعیل آباد
تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ہر بچا اسے حاصل نہیں کر سکتا کیوں کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی نہیں ہوتی اور پرائیویٹ کی فیس ہر کوئی ادا نہیں کر سکتا۔ افسوس کہ گلِ چمن سڑکوں پہ پانی جوس اور پھول بیچ رہے ہیں اور روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگانے والوں کو کسی کی فکر نہیں، پہلے چار دن شوشل ورکرز کی طرف سے ایک نعرہ بلند ہوا تھا کہ "تعلیم دو" "تعلیم دو" لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ آواز بھی تھم چکی ہے۔ سندھ کے بہت سے سرکاری اسکولوں کی عمارات میں لاکھوں روپے خرچ ہوئے ہیں لیکن ان میں تعلیم کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ افسوس کہ یہاں بہت سے میٹرک کے ایسے شاگرد بھی ہیں جنہیں اردو پڑھنی نہیں آتی، استاد اسکولوں میں آتے ہیں اور سارا دن باتیں کرتے ہیں اور پھر چھٹی کے وقت اپنے گھروں میں چلے جاتے ہیں۔ امتحانات میں سرِعام نکل ہوتی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
سرکاری اسکولوں میں استاد بہت پڑھے لکھے ہیں لیکن بچوں کو پڑھاتے نہیں ہیں بعض جگوں پہ تو استاد اسکول بھی نہیں آتے اور مفت کی تنخوا لیتے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھائی تو ہوتی ہے لیکن ان کے استاد زیادہ تجربہ گار نہیں ہوتے اور پرائیویٹ اسکولوں کی فیس ہر بچا ادا بھی نہیں کر سکتا۔ سندھ میں کاپی کلچر عروج پر پہنچا ہے، اردو زبان کی تو یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، چند ایک کے سوا یہاں کوئی شخص اردو سے اچھی طرح واقف ہی نہیں۔
استاد کا احترام کرنا ہر شاگرد کا فرض ہے لیکن میں نے بہت سے پرائیویٹ اسکولوں میں دیکھا ہے کہ شاگرد استاد کا احترام نہیں کرتے وہ اس لیے کہ وہ فیس دیتے ہیں، یہ بہت نامناسب سی بات ہے، شاگردوں کو چاہیے کہ وہ استاد کا دل سے احترام کریں کیوں کہ جو شاگرد استاد کا احترام نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
الله تعالی ہمارے سرکاری اسکولوں کے ایسے استادوں کو ہدایت دے جو مفت کی تنخوا لیتے ہیں لیکن پڑھاتے نہیں، اور الله تعالی ہمیں اور وطنِ عزیز کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں