ناول
چراغ جلاتے چلو
از ۔ نواب رانا ارسلان
قسط نمبر۔ 3
ازرق ان سے مل کر خوش ہوا اور پھر کھانا کھانے لگ گئے، کھانا کھانے کے بعد راج کمار برتن لے گیا اور کچھ وقت تک رام سنگ جی سے باتوں کا سلسلہ چلتا رہا پھر راج کمار چائے لے کر آیا اور اور ازرق نے چائے پیتے ہی کہا واھ کیا کمال کی چائے بنائی ہے ہنس مسکرایا اور بولا یہاں خالص دودھ ہوتا ہے۔ سب نے چائے پی لی تھی راج کمار اور رام سنگ چلے گئے اور پھر دونوں میں باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ازرق۔ تم کرتے کیا ہو؟
ہنس راج: میں نے پڑھائی مکمل کر لی ہے اب سرکاری نوکری کی تلاش میں ہوں۔
ازرق۔ ہا ہا ہا سرکاری نوکری؟
ہنس راج: کیوں اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟
ازرق: سرکاری نوکریاں اتنی آسانی سے نہیں ملتی۔
ہنس راج: ہاں یہ بات تو ہے۔
ازرق: یہاں 3G نہیں چلتا کیا؟
ہنس راج: یہاں سنگنل مشکل سے آتے ہیں تم 3G کی بات کر رہے ہو۔ ہنس نے ہنس کر جواب دیا۔
ازرق: مبائل چارج کرنے کے لیے بھی کوئی بندوبست نہیں ہے کیا؟
ہنس راج: مبائل چارج کرنے کے لیے سولر پینل ہے۔
اتنی دیر میں راج کمار بستر لے کر آیا جس میں ایک چادر، تکیہ اور ہاتھ سے کڑھی ہوئی رلی تھی جس پہ مختلف رنگوں کے پھول بنے ہوئے تھے۔ یہ یہاں کی ثقافتی رلی تھی جو بہت خوبصورت تھی۔
راج کمار نے بڑے ادب کے ساتھ بستر بچھایا اور پھر وہاں سے چلا گیا، دونوں اپنی اپنی چارپائی پہ لیٹ گئے اور باتوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔
ازرق: ان جھاڑیوں میں سانپ اور بچھو بھی ہوتے ہونگے۔
ہنس راج: ہاں ہوتے ہیں لیکن وہ مہمانوں کو کچھ نہیں کہتے ہنس نے مسکرا کر کہا۔
ازرق: انہیں کیا پتہ کے مہمان کون اور مقامی لوگ کون ہیں۔
ہنس راج: ہاں یہ بات بھی ہے۔
ازرق کیوں کہ تھک چکا ہوتا ہے اس لیے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور کچھ وقت بعد ازرق کے کانوں میں ایک پیاری سی مدھم سی لتا منگیشکر کے گانے کی آواز آتی ہے اور ازرق اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے وہ گانا ہنس گا رہا ہوتا ہے۔
"اے دل نادان اے دل نادان
آرزو کیا ہے جستجو کیا ہے
اے دل نادان اے دل نادان
ہم بھٹکتے ہیں کیوں بھٹکتے ہیں
دشت و صحرا میں
ایسا لگتا ہے موج پیاسی ہے
اپنے دریا میں
کیسی الجھن ہے کیوں یہ الجھن ہے
ایک سایہ سا رو برو کیا ہے
اے دل نادان اے دل نادان
آرزو کیا ہے جستجو کیا ہے
ازرق ہنس کی طرف غور سے دیکھ رہا ہوتا ہے اور مسکرا کر کہتا ہے کہ لتا جی کے فین ہو؟
ہنس راج: ہاں بہت بڑا
ازرق: تم بہت اچھا گاتے ہو
ہنس راج: شکریہ تعریف کے لیے۔ ہنس نے مسکرا کر کہا
اور پھر پھر ازرق چپ ہو جاتا ہے ایک سوچ میں پڑ جاتا ہے۔
ہنس راج: چپ کیوں ہو گئے کیا سوچ رہے ہو؟
ازرق: پتہ نہیں میری آنکھوں کے سامنے وہ کنوا، ماروی کی مورتی اور ڈاچی والا شخص کیوں بار بار آ رہا ہے، بارش کے بعد لوگ یہاں جب ڈاچی پہ سفر کرتے ہونگے ہر طرف سر سبز ہوتا ہوگا کتنا مزہ آتا ہوگا نا۔
ہنس راج: تم یہیں کیوں نہیں رہ لیتے ویسے بھی دیوانے لوگ دشت و صحرا میں ہی رہتے ہیں، ہنس نے مسکرا کر کہا۔
ازرق: تمہیں کیوں ایسا لگتا ہے کے میں دیوانا ہوں ؟
ہنس راج: تمہاری باتیں کہتی ہیں کہ تم دیوانے ہو، چلو اب سو جاؤ رات بہت ہو چکی ہے۔
اور پھر دونوں سو جاتے ہیں۔
صبح جب ہنس راج کی آنکھ کھلتی ہے تو ازرق اپنی چارپائی پر نہیں ہوتا، ہنس ادھر اُدھر دیکھتا ہے تو ازرق اسے کٹیا میں نماز ادا کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔
جب ازرق نماز پڑھ لیتا ہے تو ہنس مسکرا کر کہتا ہے
ہنس راج: میں تو گھبرا گیا تھا کہ تم پتہ نہیں کہا چلے گئے ہو۔
ازرق: میں نماز پڑھ رہا تھا
ہنس راج: ہاں میں نے دیکھا عبادت بھی کرنی چاہیے
ازرق: بلکل جناب
ہنس راج: ویسے بھی کہتے ہیں نا " شو جپیں نہ رام جپیں نہ ہری سے لاویں ہیت، وہ نراسے جائیں گے جوں مولی کے کھیت"
ازرق: مثال تو بہت اچھی دے لیتے ہو۔
تھوری دیر بعد ہلکی ہلکی روشنی ہوئی چڑیاں چہک رہیں تھی، طلوع آفتاب کا وقت ہو چکا تھا ہوا میں نمی اور تازگی تھی سورج کی کرنے پڑتے ہی رات کے اندھیرے کے خوفناک منظر سے ایک بہت ہی خوبصورت منظر میں بدل گیا تھا، آسمان پہ ہلکہ ہلکہ بادل تیزی سے ایک طرف جا رہے تھے۔ دونوں نے کچھ وقت بعد ناشتہ کیا اور سیرو تفریح کے لیے نکل دیے، چلتے چلتے اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں پہنچ گئے، یہ گاؤں ایک بڑے ٹیلے پر تھا اور میٹھے پانی کا کنوا نیچے تھا جہاں سے گاؤں کی عورتیں مٹی کے گھڑے میں پانی لے کر آرہی تھیں ازرق نے دل ہی میں سوچا یہ کتنا کٹھن کام ہے اور یہ عورتیں کتنی آسانی سے کر رہی ہیں جو ایک ہی قطار میں سب کی سب سیدھی آرہی ہیں اس ٹیلے پر تو چڑھنا ہی بہت مشکل ہے یہ کتنے آرام سے آرہی ہیں۔
ازرق نے ہنس سے سانگر (کنڈی ، جند ) کے درخت کی طرف ہاتھ کر کے پوچھا یہ کس چیز کا درخت ہے۔
ہنس راج: ہماری زبان میں اسے کنڈی کہا جاتا ہے، یہاں اس کی پھلی کے سالن کو بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔
ازرق: ہمممم
دونوں گھومتے گھومتے کافی دور کسی گاؤں میں پہنچ جاتے ہیں دوپہر کا وقت ہو گیا تھا اور گرمی بہت تھی تیز گرم ہوا اور تپتی ہوئی ریت پر چل کر دونوں تھک گئے تھے گلا پیاس کی وجہ سے خشک ہو چکا تھا، ہنس نے ایک شخص کو آواز دی اور وہ پانی لے کر آیا اور دونوں سے بہت عزت کے ساتھ پیش آیا اور دونوں کو کھانا کھانے کی پیش کش کی جو ہنس نے قبول کر لی کیوں کہ تھکاوٹ کی وجہ سے بھوک بھی لگ گئی تھی، وہ شخص دونوں کو ایک کٹیا میں لے گیا اور کٹیا کے اندر چٹائی بچھی ہوئی تھی وہیں پر بیٹھ گئے کچھ دیر بعد وہ کھانا لے کر آیا اور کھانا کھانے کے بعد کچھ وقت آرام کرنے کے بعد دونوں اٹھے اور اس شخص سے رخصتی کی اجازت مانگ کر دونوں چل دیے، اپنے گاؤں کی طرف چلتے چلتے شام ہو چکی تھی، ازرق سے تو تھکاوٹ کے مارے چلا نہیں جا رہا تھا، ہوا بھی پہلے سے کم ہو چکی تھی پھر آخر غروب آفتاب سے قبل وہ اپنے گاؤں پہنچ ہی گئے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔ Next
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں