منگل، 15 فروری، 2022

میر تقی میر

دیکھے گا جو تجھ رو کو سو حیران رہے گا

وابستہ ترے مو کا پریشان رہے گا

 

وعدہ تو کیا اس سے دم صبح کا لیکن

اس دم تئیں مجھ میں بھی اگر جان رہے گا

 

منعم نے بنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا

پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا

 

چھوٹوں کہیں ایذا سے لگا ایک ہی جلاد

تا حشر مرے سر پہ یہ احسان رہے گا

 

چمٹے رہیں گے دشت محبت میں سر و تیغ

محشر تئیں خالی نہ یہ میدان رہے گا

 

جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز

تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا

 

دل دینے کی ایسی حرکت ان نے نہیں کی

جب تک جیے گا میرؔ پشیمان رہے گا

میر تقی میر

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں