منگل، 15 فروری، 2022

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا

جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا

 

فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر

برنگ سبزۂ نورستہ پائمال کیا

 

رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی

سو اس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا

 

مری اب آنکھیں نہیں کھلتیں ضعف سے ہمدم

نہ کہہ کہ نیند میں ہے تو یہ کیا خیال کیا

 

بہار رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو

چمن کو یمن قدم نے ترے نہال کیا

 

جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلف

کسو نے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا

 

لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے

جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا

میر تقی میر

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں