بجھ گئے سب دیے جب سے تو نہ رہی
بن ترے اب کوئی آرزو نہ رہی
عشق میں چھن گئی خوش کلامی مری
اب مری پہلے سی گفتگو نہ رہی
زخم کھا کر بھی ہم مسکراتے رہے
زخم کو اب امیدِ رفو نہ رہی
میکدے میں جو جامِ سفال نہیں
میکدے جانے کی آرزو نہ رہی
پہلے تھی خوب سے خوب تر کی تلاش
اب کسی کی ہمیں جستجو نہ رہی
ساقی آزاد کر میکدے سے ہمیں
اب ہماری یہاں آبرو نہ رہی
ارسلان احمد عاکف
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں