پیر، 3 اپریل، 2023

بس انسان ہوں میں


 میں کیا ہوں

میں خوابی پرندہ، ہما ہوں

یاں طوفان کی زد میں آیا دیا ہوں

نہیں میں تو کچھ بھی نہیں ہوں

میں پھر کیا ہوں آخر؟

میں صحرا میں تشنہ ہرن ہوں

یاں پھر جلوۂ نسترن ہوں

میں سندھو کے ساحل کی مٹی

یاں پربت کی نایاب بوٹی

میں تاریکیوں کا ہوں بے نام سایہ

یاں اجڑے سرائے کا سہما تماشا

میں پاری نگر کی پرانی حویلی

یاں دریا کے ساحل پہ سوکھی چمیلی 

میں سوکھا ہوا اک شجر ہوں

یاں سویا ہوا نامہ بر ہوں

میں محفل میں خاموش سا اک مجسم

میں نادان سا ابنِ آدم

کسی بستی کی سستی دوکان ہوں میں

یاں ساقی کی بھٹی کی پہچان ہوں میں

گلستان سے بچھڑا ریحان ہوں میں

یاں ساغر کی غزلوں کا دیوان ہوں میں

میں کچھ بھی نہیں ہوں بس انسان ہوں میں

بس انسان ہوں ابنِ انسان ہوں میں

ارسلان احمد عاکف

منگل، 28 مارچ، 2023

میرے ہوتے ہوئے یہاں عاکف، ارسلان احمد عاکف

Gmail: ahleeqalam@gmail.com 

 

ماہم حیا صفدر


 

ارسلان احمد عاکف

Ahle Qalam Group

روز آتے ہیں یہاں ہارے ہوئے شخص

Ahle Qalam Writing Forum

 روز آتے ہیں یہاں ہارے ہوئے شخص

جیت کر کوئی ادھر کیوں نہیں آتا

ارسلان احمد عاکف

نادان ہوں کرتا ہوں خود ہی سے جرح


نادان ہوں کرتا ہوں خود ہی سے جرح
عاکف ہے کیا کوئی بھرم کچھ بھی نہیں
ارسلان احمد عاکف

جمعہ، 18 فروری، 2022

تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو

تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو

تم مہر ہو مہتاب ہو تم کون ہو

جو آنکھ بھی دیکھے تمہیں سرسبز ہو

تم اس قدر شاداب ہو تم کون ہو

تم لب بہ لب ،تم دل بہ دل ،تم جاں بہ

جاں

اک نشہ ہو اک خواب ہو تم کون ہو

جو دست رحمت نے مرے دل پر لکھا

تم عشق کا وہ باب ہو تم کون ہو

میں ہر گھڑی اک پیاس کا صحرا نیا

تم تازہ تر اک آب ہو تم کون ہو

میں کون ہوں وہ جس سے ملنے کے لیے

تم اس قدر بے تاب ہو تم کون ہو

میں تو ابھی برسا نہیں دو بوند بھی

تم روح تک سیراب ہو تم کون ہو

یہ موسم کمیابی گُل کل بھی تھا

تم آج بھی نایاب ہو تم کون ہو

چھوتے ہو دل کچھ اس طرح جیسے صدا

اک ساز پر مضراب ہو تم کون ہو

دل کی خبر دنیا کو ہے تم کو نہیں

کیسے مرے احباب ہو تم کون ہو

وہ گھر ہوں میں جس کے نہیں دیوار و

در

اس گھر کا تم اسباب ہو تم کون ہو

اے چاہنے والے مجھے اس عہد میں

میرا بہت آداب ہو تم کون ہو

1995

عبید اللہ علیمؔ

کسی خواب کی یہ ہم کو تعبیر نظر آئی

کس خواب کی یہ ہم کو تعبیر نظر آئی

زندان نظر آیا، زنجیر نظر آئی

سب اپنے عذابوں میں سب اپنے حسابوں

میں

دنیا یہ قیامت کی تصویر نظر آئی

کچھ دیکھتے رہنے سے، کچھ سوچتے رہنے

سے

اک شخص میں دنیا کی تقدیر نظر آئی

جلتا تھا میں آگوں میں روتا تھا میں

خوابوں میں

تب حرف میں یہ اپنی تصویر نظر آئی

دربار میں حاضر ہیں پھر اہلِ قلم اپنے

کیا حرف و بیاں میں ہے تاثیر، نظر آئی

کچھ خواب گلاب ایسے، کچھ زخم عذاب ایسے

پھر دل کے کھنڈر میں اک تعمیر نظر آئی

اک خواب کے عالم میں دیکھا کیے ہم دونوں

لو شمع کی شب ہم کو شمشیر نظر آئی

آبا کی زمینوں میں وہ کام کیا ہم نے

پھر ان کی زمیں اپنی جاگیر نظر آئی

1988

عبید اللہ علیم ؔ 

جمعرات، 17 فروری، 2022

ایک ایسی بھی ہوا آئے گی

 

ایک ایسی بھی ہوا آئے گی

جو ہر اِک زخم کو بھر جائے گی

یہ کنارے سے لپٹتی ہوئی موج

کبھی طوفاں بھی اٹھا لائے گی

پھول میں ہو کہ ہوا میں خوشبو

نور ہے نور ہی برسائے گی

اور یہ عشق و ہوس کی دنیا

تشنگی کے سوا کیا پائے گی

پھول بھی شاخ سے گر جائیں گے

شاخ بھی دھوپ سے مرجھائے گی

ہے سمٹتے ہوئے سائے کی صدا

اُٹھ یہ دیوار بھی گر جائے گی

کوئی احساس اگر ہے تو کہو

بات لفظوں سے نہ بن پائے گی

1964ء

عبید اللہ علیم ؔ

اب نہ اس سمت نظر جائے گی

 اب نہ اُس سمت نظر جائے گی

جیسے گزرے گی گزر جائے گی
صُورت زلف یہ تلوار سی رات
جیسے دل ہی میں اتر جائے گی
ہم پہ اب جو بھی قیامت گزرے
تیری دنیا تو سنور جائے گی
دور تک ہم ہی نظر آئیں گے
جس طرف بھی وہ نظر جائے گی
اس بدلتی ہوئی رفتار کے ساتھ
زندگی جانے کدھر جائے گی
اور کچھ دنوں میں جنوں کی اپنے
شہر در شہر خبر جائے گی
لمحہ لمحہ جو سمیٹی   ہے عمر
ایک لمحے میں بکھر جائے گی
1964ء
عبید اللہ علیم ؔ

چاند سا دل ہو چاندنی سا گداز

 چاند سا دل ہو چاندنی سا گداز

ورنہ کیا نغمہ ساز و نغمہ نواز

سننے والو اسے بھی سن لینا

صُورت زخم بھی ہے اِک آواز

جس کو دیکھو وہ دل شکستہ ہے

کون ہے اس جہاں کا آئینہ ساز

قید کی عمر ایسی راس آئی

سو رہی بازوؤں ہی میں پرواز

جس نے بخشے ہیں غم اُسی کیلئے

کر رہا ہوں دعائے عمرِ دراز

1962ء

عبید اللہ علیم ؔ

میرے ہر نقش کو


 

بدھ، 16 فروری، 2022

کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا

کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا

کس کی تلاش ہے تمہیں اور کون کھو گیا


آنکھوں میں روشنی بھی ہے ویرانیاں بھی ہیں

اِک چاند ساتھ ساتھ ہے اِک چاند گہہ گیا


تم ہمسفر ہوئے تو ہوئی زندگی عزیز

مجھ میں تو زندگی کا کوئی حوصلہ نہ تھا


تم ہی کہو کہ ہوبھی سکے گا مرا علاج

اگلی محبتوں کے مرے زخم آشنا


جھانکا ہے میں نے خلوت جاں میں نگارِ جاں

کوئی نہیں ہے کوئی نہیں ہے ترے سوا


وہ اور تھا کوئی جسے دیکھا ہے بزم میں

گر مجھ کو ڈھونڈنا ہے مری خلوتوں میں آ


اے میرے خواب آ مری آنکھوں کو رنگ دے

اے مری روشنی تو مجھے راستا دکھا


اب آبھی جا کہ صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جاؤں

اے میرے آفتاب بہت تیز ہے ہوا


یارب عطا ہو زخم کوئی شعر آفریں

اِ ک عمر ہو گئی کہ مرا دل نہیں دکھا


وہ دور آگیا ہے کہ اب صاحبان درد

جو خواب دیکھتے ہیں وہی خواب نارسا


دامن بنے تو رنگ ہوا دسترس سے دور

موجِ ہوا ہوئے تو ہے خوشبو گزیر پا


لکّھیں بھی کیا کہ اب کوئی احوالِ دل نہیں

چینخیں بھی کیا کہ اب کوئی سنتا نہیں صدا


آنکھوں میں کچھ نہیں ہے بجز خاکِ رہ گزر

سینے میں کچھ نہیں ہے بجز نالہ و نوا


پہچان لو ہمیں کہ تمہاری صدا ہیں ہم

سن لو کہ پھر نہ آئیں گے ہم سے غزل سرا


1970ء


عبید اللہ علیم ؔ