بدھ، 16 فروری، 2022

عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے

عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے

وہ زندہ لوگ مرے گھر کے جیسے مر سے گئے


ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ

نہ جانے کیا ہوا اِک آن میں بکھر سے گئے


بچھڑنے والوں کا دکھ ہو تو سوچ لینا یہی

کہ اِک نوائے پریشاں تھے رہ گزر سے گئے


ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی

کہ اک سفر میں رہے اور ہر سفر سے گئے


کبھی وہ جسم ہوا اور کبھی وہ روح تمام

اسی کے خواب تھے آنکھوں میں ہم جدھر سے گئے


یہ حال ہو گیا آخر تری محبّت میں

کہ چاہتے ہیں تجھے اور تری خبر سے گئے


مرا ہی رنگ تھے، تو کیوں نہ بس رہے مجھ میں

مرا ہی خواب تھے تو کیوں مری نظر سے گئے


جو زخم، زخم ِ زباں بھی ہے اور نمو بھی ہے

تو پھر یہ وہم ہے کیسا کہ ہم ہنر سے گئے



عبید اللہ علیم ؔ

 

میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں

میں یہ کس کے نام لکھوں، جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں، مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غُنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بِکھر رہے ہیں

کبھی رحمتیں تھیں نازل اِسی خطۂ زمیں پر
وہی خطۂ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جُھرمٹ جو ہوا میں جُھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو، نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے، پسِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں

1971ء

عبید اللہ علیم ؔ

کوئی دھن ہو

 کوئی دھن ہو میں ترے گیت ہی گائے جاؤں 

درد سینے میں اٹھے شور مچائے جاؤں 


خواب بن کر تو برستا رہے شبنم شبنم 

اور بس میں اسی موسم میں نہائے جاؤں 


تیرے ہی رنگ اترتے چلے جائیں مجھ میں 

خود کو لکھوں تری تصویر بنائے جاؤں 


جس کو ملنا نہیں پھر اس سے محبت کیسی 

سوچتا جاؤں مگر دل میں بسائے جاؤں 


اب تو اس کی ہوئی جس پہ مجھے پیار آتا ہے 

زندگی آ تجھے سینے سے لگائے جاؤں


عبید اللہ علیم

دل دریچہ

 دِل دریچہ ...!! 


وہ اِک دریچہ کھلا ملے گا....!! 

وہ جس دریچے سے تیری یادوں کی خوشبو آئے ، 

وہی دریچہ ،

تمہیں خبر بھی ہے میرے حجرے میں جو اداسی ہے ،

وحشتیں ہیں ، اذیتیں ہیں ، 

تمہاری یادوں کی خوشبؤں سے ہی منسلک ہیں 

اور ایک بات اور گر کبھی بھی

 تمہیں ہو واپس جو لوٹنا تو

اسی دریچے سے لوٹ آنا ، 

وہی دریچہ ،

جسے کبھی دِل دریچہ تم نے کہا تھا ، 

بالکل وہی دریچہ ، 

کھلا ملے گا.... !!


معاذ فرہادؔ

معاذ فرہاد

خَاک یُوں بھی مرا غُرُور ہُوا !!

وُہ مِلا ، اور مِل کے دُور ہُوا !!


کیفِیَت! مُجھ مِیں غَم کی چھوڑ گیَا ،

جَب وُہ تھوڑا سَا بَا شعُور ہُوا !!


رنج بے بَس پڑَا رہَا مُجھ مِیں ،

اور سَارا مرا قُصُور ہُوا !! 


میرے مالِک! بلَائِیں ٹَال بُری ،

پَھر سے پیدَا کوئِی فطُور ہُوا !!


خستگِی مُجھ سے خَوف کَھانے لگی ،

پِی کے مے جَب کبھی بھی چُور ہُوا !!


کیا ہوں گُمرَہِیَوں کے رسْتے پَر ؟؟

دُور مُجھ سے مرَا صبُور ہوا !! 


میں دِوَانہ جہَان بَھر مِیں فَقَط ،

آپ کے نَام کا حضُور ہُوا !!


معاذ فرہادؔ 

میں نے دیکھا تو نہیں

 مینے دیکھا تو نہیں دیکھنے والا ہوگا !!

نور نے طور کو جس طرح سنبھالا ہوگا !! 


اتنی الفت سے بھلا کیسے بچا جا سکتا ہے 

عین ممکن ہے خدا نے ہی سنبھالا ہوگا !!


میرے اشعار فقط غم کی زباں بولتے ہیں 

ہر جگہ اِن میں اذیت کا حوالہ ہوگا !!


جب بناؤں گا میں پنسل سے حسیں چہرہ کوئی

تیری تخلیق کا منہ دیکھنے والا ہوگا !! 


آ کسی روز مرے دل کا مکیں بن کے دیکھ

عین ممکن ہے ترے دل میں اجالا ہوگا !!


معاذ فرہادؔ

منگل، 15 فروری، 2022

ایک میں بھی ہوں

ایک میں بھی ہوں کُلہ داروں کے بیچ

میرؔ صاحب کے پرستاروں کے بیچ


روشنی آدھی اِدھر آدھی اُدھر

اِک دیا رکّھا ہے دیواروں کے بیچ


میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا

آئنہ خانے تھے نظّاروں کے بیچ


ہے یقیں مجھ کو کہ سیّارے پہ ہوں

آدمی رہتے ہیں سیّاروں کہ بیچ


کھا گیا انسان کو آشوبِ معاش

آگئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ


میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر

اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ


اپنی ویرانی کے گوھر رولتا

رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ


کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے

گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ


اہلِ دل کے درمیا ں تھے میؔر تم

اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ


آنکھ والے کو نظر آئے علیمؔ

اِک محمد ؐمصطفےٰ ساروں کے بیج ؔ

عبید اللہ علیم 

عبید اللہ علیم غزل

ویران سرائے کا دیا ہے
جو کون و مکاں میں جل رہا ہے

یہ کیسی بچھڑنے کی سزا ہے
آئینے میں چہرہ رکھ گیا ہے

خورشید مثال شخص کل شام
مٹی کے سپرد کر دیا ہے

تم مر گئے حوصلہ تمھارا
زندہ ہوں یہ میرا  حوصلہ ہے

اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

میں کون سا خواب دیکھتا ہوں
یہ کون سے ملک کی فضا ہے

وہ کون سا ہاتھ ہے کہ جس نے
مجھ آگ کو خاک سے لکھا ہے

رکّھا تھا خلا ء میں پاؤں میں نے
رستے میں ستارہ آگیا ہے

شاید کہ خدا میں اور مجھ میں
اِک جست کا اور فاصلہ ہے

گردش میں ہیں کتنی کائناتیں
بچہ مرا پاؤں چل رہا ہے


عبید اللہ علیم

مادرِ ملّت


 

عزیز بھٹی شہید


 

خواجہ میر درد

ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا 


پر اسے آہ کچھ اثر نہ کیا 


سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما 


اس طرف کو کبھو گزر نہ کیا 


کیوں بھویں تانتے ہو بندہ نواز 


سینہ کس وقت میں سپر نہ کیا 


کتنے بندوں کو جان سے کھویا 


کچھ خدا کا بھی تو نے ڈر نہ کیا 


دیکھنے کو رہے ترستے ہم 


نہ کیا رحم تو نے پر نہ کیا 


آپ سے ہم گزر گئے کب کے 


کیا ہے ظاہر میں گو سفر نہ کیا 


کون سا دل ہے وہ کہ جس میں آہ 


خانہ آباد تو نے گھر نہ کیا 


تجھ سے ظالم کے سامنے آیا 


جان کا میں نے کچھ خطر نہ کیا 


سب کے جوہر نظر میں آئے دردؔ 


بے ہنر تو نے کچھ ہنر نہ کیا  

میرے وطن


 

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے