پیر، 14 فروری، 2022

اس کی محفل میں خوب الفت ملی تھی

اس کی محفل میں خوب الفت ملی تھی 

پیار کے بدلے میں اذیت ملی تھی


داستانِ الفت تمہیں کیا سناؤں

راہِ الفت میں بس ندامت ملی تھی


وہ شرابی آنکھیں وہ بکھرے ہوئے بال

عشق کی گلیوں سے عداوت ملی تھی


خود ہی کر ڈالی اپنے ہاتھوں سے برباد

زندگی مجھ کو خوبصورت ملی تھی


خواہشوں کی خاطر میں نے کھو دی وہ بھی

مجھ کو ورثے میں بس محبت ملی تھی

ارسلان احمد عاکف 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں