اس کی محفل میں خوب الفت ملی تھی
پیار کے بدلے میں اذیت ملی تھی
داستانِ الفت تمہیں کیا سناؤں
راہِ الفت میں بس ندامت ملی تھی
وہ شرابی آنکھیں وہ بکھرے ہوئے بال
عشق کی گلیوں سے عداوت ملی تھی
خود ہی کر ڈالی اپنے ہاتھوں سے برباد
زندگی مجھ کو خوبصورت ملی تھی
خواہشوں کی خاطر میں نے کھو دی وہ بھی
مجھ کو ورثے میں بس محبت ملی تھی
ارسلان احمد عاکف
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں