ناول
تپِ ہجر
از قلم ارسلان احمد عاکف
دوسری قسط
اوئے سُن اوئے قاصد کِدھر جا رہا ہے؟ چودھری چراغ دین (بابا جی) سیف علی ( قاصد) کو پیچھے سے آواز دے کر کہتے ہیں۔
بابا جی گاؤں میں خطوط بانٹنے جا رہا ہوں۔
اتنا بھی بڑا نہیں ہوں کہ تم مجھے بابا جی بول رہے ہو۔ بابا جی نے سیفی کو ٹوکتے ہوئے کہا۔
ارے بابا جی سارا پنڈ کہتا ہے اگر میں نے کہہ دیا تو کیا ہوا؟ سیفی مسکرا کر بولا۔
اچھا چھوڑ تو یہ بتا میرا کوئی خط آیا ہے؟
نہیں بابا جی!!!
اچھا پھر تو جا، بابا جی نے افسودہ ہو کر کہا، اور پھر سیف چلا گیا۔
اوئے قاصد! زلیخا نے قاصد کو آواز دی۔
میرا نام سیف علی ہے، قاصد نے چڑ کر کہا۔
اچھا جو بھی ہو تم یہ خط لے جاؤ اور جا کر شیر زماں کو دے دینا۔
اس پہ تو کسی کا نام ہی نہیں لکھا، سیف نے حیرانگی سے پوچھا۔
خط لکھنے والی نے اپنا نام لفافے کے اندر لکھا ہے۔ زلیخا نے جواباً کہا۔
لکھنے والی نے! کہیں آپ نے تو نہیں لکھا؟
ارے نہیں تم بس یہ خط شیر زماں کو دینا اور اگر پوچھے کہ کس نے دیا تو کہنا کہ دینے والی نے نام نہیں بتایا۔
اچھا شکر ہے آپ نے نہیں لکھا ، سیف علی نے مسکرا کر کہا اور پھر چلا گیا۔ زلیخا سیف کی بات سن کر حیران ہو گئی کہ اس نے ایسا کیوں کہا۔
سیف علی زلیخا کو کافی عرصے سے محبت کرتا تھا لیکن شاید کبھی ہمت نہ ہوئی اظہارِ خیال کرنے کی۔
سیف خط جا کر شیر زماں کو دے دیتا ہے اور شیر زماں گھر جا کر خط کھولتا ہے۔۔۔۔
السلام علیکم
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوںگے۔ بہت دنوں سے سوچ رہی تھی کہ کسی طرح آپ سے اظہارِ خیال کروں، کبھی خیال آتا کہ آپ سے ملوں لیکن مل بھی اکیلے کیسے سکتی ہوں اس لیے خط لکھ رہی ہوں بہت دنوں سے میرے خیالوں خوابوں اور دعاؤں میں آپ ہی آ رہے ہو، شیر زماں مجھے آپ سے محبت ہو گئی ہے، اب اپنے رب سے یہی دعا کرتی ہوں کہ آپ بھی دل و جان سے مجھے قبول کرلیں۔ امید کرتی ہوں کہ آپ کا جواب ہاں میں ہوگا۔ خط کا جواب ضرور دیجئے گا اور خط پہ نام مت لکھئے گا بس قاصد کو اتنا کہہ دیجئے گا کہ جس نے تمہیں خط دیا اسے جا کر دے دو۔
الله تعالى آپ کی حفاظت کرے۔آمین
ولسلام
شاھ بانو(ملکہ) بنت مہر اقبال
شیر زماں خط پڑھ کر بہت خوش ہو جاتا ہے۔
اے میرے رب تیرا بہت بہت شکر ہے کہ ملکہ بھی مجھے پسند کرتی ہے شیر زماں دل ہی میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے، اور پھر ملکہ کے نام ایک خط لکھتا ہے اور خط لکھ کر قاصد کو دے دیتا ہے۔ قاصد شیر زماں کا خط لے کر زلیخا کو دینے کے لیے نکل پڑتا ہے اور دل ہی میں سوچتا ہے کہ کہیں یہ خط زلیخا کے نام تو نہیں، سیف کو یہ فکر لگ جاتی ہے کہ کہیں زلیخا شیر زماں سے محبت تو نہیں کرتی، آخر سیف کو زلیخا ندی کنارے اکیلی ایک بڑے پتھر پر بیٹھی ملتی ہے۔
السلام علیکم!
و علیکم السلام! زلیخا چونک کر اٹھی اور پھر سلام کا جواب دیا۔
آپ یہاں کیا کر رہیں؟
کچھ نہیں ویسے ہی لطف اندوز ہونے کے لیے آئی ہوں۔
اچھا!!! یہ خط شیر زماں نے دیا ہے۔ سیف نے منہ لٹکا کر کہا۔
اچھا دو!!!! زلیخا نے مختصر سا جواب دیا۔
کیا یہ خط آپ لکھتی ہیں ؟
نہیں! بتایا تو تھا تمہیں کہ کوئی اور لکھتی ہے۔ زلیخا چڑ کر بولی۔
تو وہ کون ہے؟ سیف نے بے چینی سے پوچھا۔
ہے کوئی محبت کرنے والی شیر زماں سے وہ محبت کرتی ہے لیکن تم کیوں اتنی دلچسپی لے رہے ہو قاصد ہو تو قاصد ہی رہو۔
آپ تو نہیں ہونا؟ سیف نے پھر سے سوالیہ انداز میں کہا۔
ارے نہیں ہوں میں، زلیخا نے غصے سے کہا۔
ٹھیک ہے اصل میں بات یہ ہے کہ!!! سیف اتنا کہہ کر اٹک گیا۔
ہاں کیا بات ہے؟ زلیخا نے منہ کو سوالیہ انداز میں ہلایا۔
بات یہ ہے کہ آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہو میں آپ سے محبت کرتا ہوں، سیف نے ایک ہی سانس میں اظہارِ محبت کر دیا۔
کیا؟ زلیخا نے آھستہ سے کہا، اور وہ حیران رہ گئی زلیخا کے قدم آھستہ آھستہ پیچھے ہٹنے لگ گئے اور آخر وہ وہاں سے کچھ کہے بغیر چلے گئی۔
زلیخا! زلیخا! سیف نے پیچھے سے آواز دی لیکن زلیخا نہ رکی۔ زلیخا شیر زماں کا خط ملکہ کو دے کر اپنے گھر چلے گئی، ملکہ خط کھول کر پڑھتی ہے۔
السلام علیکم
جی میں بلکل ٹھیک ہوں امید ہے کہ آپ بھی ٹھیک ہوں گی۔ قدرت نے شاید ہمیں ایک دوسرے کے لیے ہی بنایا ہے میرے بھی خیالوں میں کچھ روز سے آپ ہی آ رہی ہیں مجھے بھی شاید آپ سے محبت ہو گئی ہے بس زیادہ نہیں لکھوں گا بس اتنا کہوں گا کہ کل شام کو ندی کنارے میں آپ کا انتظار کروں گا
ولسلام
آپکا شیر زماں
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں