ہفتہ، 29 مئی، 2021

ناول تپِ ہجر از قلم ارسلان احمد عاکف، پہلی قسط

 ناول

تپِ ہجر

از قلم ارسلان احمد عاکف

پہلی قسط


السلام علیکم چچی جان

و علیکم السلام گل بانو آؤ بیٹھو! کیسی ہو؟

میں ٹھیک ہو، آپ کیسی ہیں اور ملکہ کہاں ہے؟ گل بانو نے چچی جان سے بے چینی سے پوچھا۔

ارے بھئی میں بھی ٹھیک ہوں اور ملکہ اندر ہے جاؤ مل لو، چچی نے مسکرا کر جواب دیا۔

السلام علیکم ملکہ ! گل بانو نے اندر داخل ہوتے ہی خوشی سے سلام کہا۔

و علیکم السلام! گل بانو تم! کیسی ہو؟ ملکہ (شاھ بانو) خوشی سے اٹھی اور گل بانو کے گلے لگ کر بولی۔

میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیسی ہو؟ گل بانو نے جواب دیا۔

آؤ بیٹھو میں تمہارے لیے پانی لے کر آتی ہوں۔

ارے نہیں تم بھی بیٹھ جاؤ مجھے پیاس نہیں۔

اور سناؤ تمہارے میاں کیسے ہیں، ملکہ بیٹھتے ہوئے بولی۔

اُن کو کیا ہونا ہے بلکل ٹھیک ہیں، مونچھوں کو تاؤ دیتے رہتے ہیں، گل بانو نے مسکرا کر کہا۔

اور تمہارے دیور؟ ملکہ ہلکی سی چہرے پہ مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی۔

وہ بھی ٹھیک ہے، گل نے جواباً کہا۔

چلو چلتے ہیں باہر ندی کنارے موسم بہت حسین ہے، ملکہ نے گل بانو سے ندی کنارے چلنے کو کہا۔

چلیں ٹھیک ہے چلو۔

گاؤں کے باہر ایک ندی تھی اور شام کے وقت ندی کے کنارے بہت پُر لطف اور پُر سکون ماحول تھا، گل، ملکہ اور ملکہ کی سہیلی زلیخا ندی کنارے جاتی ہیں۔

وہاں گل بانو کا دیور شیرزماں اور اس کا دوست دستگیر بھی ہوتے ہیں، ملکہ شیر زماں کو دیکھ کر خوش ہو جاتی ہے۔

وہ دیکھ گل تیرا دیور بھی پہنچ گیا، زلیخا نے مسکرا کر کہا۔

ہاں، گل دھیمی آواز میں بولتی ہے۔

شیر زماں بھی ان کو دیکھ لیتا ہے اور شیرزماں ملکہ کی طرف دیکھ کر عجیب کشمکش میں غم ہو جاتا ہے۔

ارے شیرو کیا ہو گیا؟ دستگیر شیرزماں کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

کچھ نہیں! چلو چلتے ہیں، شیر زماں جواباً بولا، اور وہ دونوں وہاں سے چلے گئے۔

کچھ وقت کے بعد ملکہ والے بھی وہاں سے رخصت ہو جاتے ہیں اور راستے میں انہیں گاؤں کے  بڑے چودھری رحمت علی کا صاحبزادہ چودھری شاھ جہاں دیکھ لیتا ہے۔

سن سیفی یہ اقبال کی بیٹی ہے نا، شاھ جہاں اپنے دوست سیف علی (قاصد) سے پوچھتا ہے۔

ہاں یہ اقبال ہی کی بیٹی ہے، سیف جواباً کہتا ہے۔

کیا نام ہے اسکا؟ شاھ جہاں دلچسپی سے پوچھتا ہے۔

شاھ بانو نام ہے اسکا۔

شاھ بانو، بالکل ملکہ ہی لگتی ہے، شاھ جہاں مسکراتے ہوئے بولتا ہے۔

ارے شاھ جہاں مزے کی بات تو یہ ہے کہ اسے سب ملکہ ہی کہتے ہیں۔

اچھا!!! شاھ جہاں سیف کی طرف حیرانگی سے دیکھتا ہے اور پھر ملکہ کے وہاں سے گزر جانے کے بعد شاھ جہاں اور سیف دوسری باتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں، شاھ جہاں بہت ہی خوبصورت تھا، بڑی موچھیں تھی اور اسے موچھوں کو تاؤ دینے کی عادت بھی تھی، شاھ جہاں خوبصورت کے ساتھ سخی دل اور بہادر بھی تھا۔

             🔯✡🔯✡  


راستے سے گل بانو اپنے گھر چلے جاتی ہے اور ملکہ اور زلیخا اپنی منزل(گھر) کی طرف رواں رہتی ہیں۔

زلیخا وہ کتنا خوبصورت ہے نا؟ ملکہ شیر زماں کے خیالوں میں ڈوبی ہوئی زلیخا سے کہتی ہے، شیر زماں بھی بہت خوبصورت اور با اخلاق شخص تھا۔

کون؟ زلیخا نے حیرانگی سے پوچھا۔

گل کا دیور شیر زماں، ملکہ نے جواب میں کہا۔

اوئے ہوئے تو شیر زماں کے خواب دیکھے جا رہے ہیں، زلیخا شرارتی انداز میں بولی۔

ہاں زلیخا میں اس کے خواب دیکھنے لگی ہوں، شاید مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے، دل چاہتا ہے وہ ہر وقت میرے سامنے رہے، اور میں اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ندی کنارے لے جاؤں اور ندی کنارے میرے اور اسکے سوا اور کوئی بھی نا ہو، ہلکی ہلکی بارش ہو ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ہو، اور ہم دونوں عشق کے سمندر میں بہتے چلے جائیں، ملکہ فلسفیانہ انداز میں بولتی چلی جا رہی تھی۔

ملکہ ہوش میں آؤ یہاں کوئی ندی نہیں ہے، زلیخا ملکہ کی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔ چلو تمہارا گھر آ گیا اب میں چلتی ہوں اپنے گھر۔

نہیں رکو زلیخا مجھے تم سے ایک کام ہے۔

کیا کام ہے؟ زلیخا نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔

میں تمہیں ایک خط لکھ کر دیتی ہوں، کیا تم کسی طرح شیر زماں کے پاس پہنچا دو گی؟

ہممم! ٹھیک ہے لکھ دو میں قاصد کو دے دوں گی وہ پہنچا دے گا۔

ہاں پر زلیخا کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے۔

ارے تم فکر مت کرو کسی کو علم نہیں ہوگا، زلیخا نے مسکرا کر کہا، اور پھر ملکہ خط لکھ کر زلیخا کو دیتی ہے۔

چلو آج تو دیر ہو چکی ہے میں کل کو قاصد کو دے دوں گی۔ زلیخا اتنا کہہ کر اپنے گھر چلے جاتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں