پیر، 31 مئی، 2021
اتوار، 30 مئی، 2021
ہفتہ، 29 مئی، 2021
ناول تپِ ہجر از قلم ارسلان احمد عاکف دوسری قسط
ناول
تپِ ہجر
از قلم ارسلان احمد عاکف
دوسری قسط
اوئے سُن اوئے قاصد کِدھر جا رہا ہے؟ چودھری چراغ دین (بابا جی) سیف علی ( قاصد) کو پیچھے سے آواز دے کر کہتے ہیں۔
بابا جی گاؤں میں خطوط بانٹنے جا رہا ہوں۔
اتنا بھی بڑا نہیں ہوں کہ تم مجھے بابا جی بول رہے ہو۔ بابا جی نے سیفی کو ٹوکتے ہوئے کہا۔
ارے بابا جی سارا پنڈ کہتا ہے اگر میں نے کہہ دیا تو کیا ہوا؟ سیفی مسکرا کر بولا۔
اچھا چھوڑ تو یہ بتا میرا کوئی خط آیا ہے؟
نہیں بابا جی!!!
اچھا پھر تو جا، بابا جی نے افسودہ ہو کر کہا، اور پھر سیف چلا گیا۔
اوئے قاصد! زلیخا نے قاصد کو آواز دی۔
میرا نام سیف علی ہے، قاصد نے چڑ کر کہا۔
اچھا جو بھی ہو تم یہ خط لے جاؤ اور جا کر شیر زماں کو دے دینا۔
اس پہ تو کسی کا نام ہی نہیں لکھا، سیف نے حیرانگی سے پوچھا۔
خط لکھنے والی نے اپنا نام لفافے کے اندر لکھا ہے۔ زلیخا نے جواباً کہا۔
لکھنے والی نے! کہیں آپ نے تو نہیں لکھا؟
ارے نہیں تم بس یہ خط شیر زماں کو دینا اور اگر پوچھے کہ کس نے دیا تو کہنا کہ دینے والی نے نام نہیں بتایا۔
اچھا شکر ہے آپ نے نہیں لکھا ، سیف علی نے مسکرا کر کہا اور پھر چلا گیا۔ زلیخا سیف کی بات سن کر حیران ہو گئی کہ اس نے ایسا کیوں کہا۔
سیف علی زلیخا کو کافی عرصے سے محبت کرتا تھا لیکن شاید کبھی ہمت نہ ہوئی اظہارِ خیال کرنے کی۔
سیف خط جا کر شیر زماں کو دے دیتا ہے اور شیر زماں گھر جا کر خط کھولتا ہے۔۔۔۔
السلام علیکم
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوںگے۔ بہت دنوں سے سوچ رہی تھی کہ کسی طرح آپ سے اظہارِ خیال کروں، کبھی خیال آتا کہ آپ سے ملوں لیکن مل بھی اکیلے کیسے سکتی ہوں اس لیے خط لکھ رہی ہوں بہت دنوں سے میرے خیالوں خوابوں اور دعاؤں میں آپ ہی آ رہے ہو، شیر زماں مجھے آپ سے محبت ہو گئی ہے، اب اپنے رب سے یہی دعا کرتی ہوں کہ آپ بھی دل و جان سے مجھے قبول کرلیں۔ امید کرتی ہوں کہ آپ کا جواب ہاں میں ہوگا۔ خط کا جواب ضرور دیجئے گا اور خط پہ نام مت لکھئے گا بس قاصد کو اتنا کہہ دیجئے گا کہ جس نے تمہیں خط دیا اسے جا کر دے دو۔
الله تعالى آپ کی حفاظت کرے۔آمین
ولسلام
شاھ بانو(ملکہ) بنت مہر اقبال
شیر زماں خط پڑھ کر بہت خوش ہو جاتا ہے۔
اے میرے رب تیرا بہت بہت شکر ہے کہ ملکہ بھی مجھے پسند کرتی ہے شیر زماں دل ہی میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے، اور پھر ملکہ کے نام ایک خط لکھتا ہے اور خط لکھ کر قاصد کو دے دیتا ہے۔ قاصد شیر زماں کا خط لے کر زلیخا کو دینے کے لیے نکل پڑتا ہے اور دل ہی میں سوچتا ہے کہ کہیں یہ خط زلیخا کے نام تو نہیں، سیف کو یہ فکر لگ جاتی ہے کہ کہیں زلیخا شیر زماں سے محبت تو نہیں کرتی، آخر سیف کو زلیخا ندی کنارے اکیلی ایک بڑے پتھر پر بیٹھی ملتی ہے۔
السلام علیکم!
و علیکم السلام! زلیخا چونک کر اٹھی اور پھر سلام کا جواب دیا۔
آپ یہاں کیا کر رہیں؟
کچھ نہیں ویسے ہی لطف اندوز ہونے کے لیے آئی ہوں۔
اچھا!!! یہ خط شیر زماں نے دیا ہے۔ سیف نے منہ لٹکا کر کہا۔
اچھا دو!!!! زلیخا نے مختصر سا جواب دیا۔
کیا یہ خط آپ لکھتی ہیں ؟
نہیں! بتایا تو تھا تمہیں کہ کوئی اور لکھتی ہے۔ زلیخا چڑ کر بولی۔
تو وہ کون ہے؟ سیف نے بے چینی سے پوچھا۔
ہے کوئی محبت کرنے والی شیر زماں سے وہ محبت کرتی ہے لیکن تم کیوں اتنی دلچسپی لے رہے ہو قاصد ہو تو قاصد ہی رہو۔
آپ تو نہیں ہونا؟ سیف نے پھر سے سوالیہ انداز میں کہا۔
ارے نہیں ہوں میں، زلیخا نے غصے سے کہا۔
ٹھیک ہے اصل میں بات یہ ہے کہ!!! سیف اتنا کہہ کر اٹک گیا۔
ہاں کیا بات ہے؟ زلیخا نے منہ کو سوالیہ انداز میں ہلایا۔
بات یہ ہے کہ آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہو میں آپ سے محبت کرتا ہوں، سیف نے ایک ہی سانس میں اظہارِ محبت کر دیا۔
کیا؟ زلیخا نے آھستہ سے کہا، اور وہ حیران رہ گئی زلیخا کے قدم آھستہ آھستہ پیچھے ہٹنے لگ گئے اور آخر وہ وہاں سے کچھ کہے بغیر چلے گئی۔
زلیخا! زلیخا! سیف نے پیچھے سے آواز دی لیکن زلیخا نہ رکی۔ زلیخا شیر زماں کا خط ملکہ کو دے کر اپنے گھر چلے گئی، ملکہ خط کھول کر پڑھتی ہے۔
السلام علیکم
جی میں بلکل ٹھیک ہوں امید ہے کہ آپ بھی ٹھیک ہوں گی۔ قدرت نے شاید ہمیں ایک دوسرے کے لیے ہی بنایا ہے میرے بھی خیالوں میں کچھ روز سے آپ ہی آ رہی ہیں مجھے بھی شاید آپ سے محبت ہو گئی ہے بس زیادہ نہیں لکھوں گا بس اتنا کہوں گا کہ کل شام کو ندی کنارے میں آپ کا انتظار کروں گا
ولسلام
آپکا شیر زماں
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
ناول تپِ ہجر از قلم ارسلان احمد عاکف، پہلی قسط
ناول
تپِ ہجر
از قلم ارسلان احمد عاکف
پہلی قسط
السلام علیکم چچی جان
و علیکم السلام گل بانو آؤ بیٹھو! کیسی ہو؟
میں ٹھیک ہو، آپ کیسی ہیں اور ملکہ کہاں ہے؟ گل بانو نے چچی جان سے بے چینی سے پوچھا۔
ارے بھئی میں بھی ٹھیک ہوں اور ملکہ اندر ہے جاؤ مل لو، چچی نے مسکرا کر جواب دیا۔
السلام علیکم ملکہ ! گل بانو نے اندر داخل ہوتے ہی خوشی سے سلام کہا۔
و علیکم السلام! گل بانو تم! کیسی ہو؟ ملکہ (شاھ بانو) خوشی سے اٹھی اور گل بانو کے گلے لگ کر بولی۔
میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیسی ہو؟ گل بانو نے جواب دیا۔
آؤ بیٹھو میں تمہارے لیے پانی لے کر آتی ہوں۔
ارے نہیں تم بھی بیٹھ جاؤ مجھے پیاس نہیں۔
اور سناؤ تمہارے میاں کیسے ہیں، ملکہ بیٹھتے ہوئے بولی۔
اُن کو کیا ہونا ہے بلکل ٹھیک ہیں، مونچھوں کو تاؤ دیتے رہتے ہیں، گل بانو نے مسکرا کر کہا۔
اور تمہارے دیور؟ ملکہ ہلکی سی چہرے پہ مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی۔
وہ بھی ٹھیک ہے، گل نے جواباً کہا۔
چلو چلتے ہیں باہر ندی کنارے موسم بہت حسین ہے، ملکہ نے گل بانو سے ندی کنارے چلنے کو کہا۔
چلیں ٹھیک ہے چلو۔
گاؤں کے باہر ایک ندی تھی اور شام کے وقت ندی کے کنارے بہت پُر لطف اور پُر سکون ماحول تھا، گل، ملکہ اور ملکہ کی سہیلی زلیخا ندی کنارے جاتی ہیں۔
وہاں گل بانو کا دیور شیرزماں اور اس کا دوست دستگیر بھی ہوتے ہیں، ملکہ شیر زماں کو دیکھ کر خوش ہو جاتی ہے۔
وہ دیکھ گل تیرا دیور بھی پہنچ گیا، زلیخا نے مسکرا کر کہا۔
ہاں، گل دھیمی آواز میں بولتی ہے۔
شیر زماں بھی ان کو دیکھ لیتا ہے اور شیرزماں ملکہ کی طرف دیکھ کر عجیب کشمکش میں غم ہو جاتا ہے۔
ارے شیرو کیا ہو گیا؟ دستگیر شیرزماں کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
کچھ نہیں! چلو چلتے ہیں، شیر زماں جواباً بولا، اور وہ دونوں وہاں سے چلے گئے۔
کچھ وقت کے بعد ملکہ والے بھی وہاں سے رخصت ہو جاتے ہیں اور راستے میں انہیں گاؤں کے بڑے چودھری رحمت علی کا صاحبزادہ چودھری شاھ جہاں دیکھ لیتا ہے۔
سن سیفی یہ اقبال کی بیٹی ہے نا، شاھ جہاں اپنے دوست سیف علی (قاصد) سے پوچھتا ہے۔
ہاں یہ اقبال ہی کی بیٹی ہے، سیف جواباً کہتا ہے۔
کیا نام ہے اسکا؟ شاھ جہاں دلچسپی سے پوچھتا ہے۔
شاھ بانو نام ہے اسکا۔
شاھ بانو، بالکل ملکہ ہی لگتی ہے، شاھ جہاں مسکراتے ہوئے بولتا ہے۔
ارے شاھ جہاں مزے کی بات تو یہ ہے کہ اسے سب ملکہ ہی کہتے ہیں۔
اچھا!!! شاھ جہاں سیف کی طرف حیرانگی سے دیکھتا ہے اور پھر ملکہ کے وہاں سے گزر جانے کے بعد شاھ جہاں اور سیف دوسری باتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں، شاھ جہاں بہت ہی خوبصورت تھا، بڑی موچھیں تھی اور اسے موچھوں کو تاؤ دینے کی عادت بھی تھی، شاھ جہاں خوبصورت کے ساتھ سخی دل اور بہادر بھی تھا۔
🔯✡🔯✡
راستے سے گل بانو اپنے گھر چلے جاتی ہے اور ملکہ اور زلیخا اپنی منزل(گھر) کی طرف رواں رہتی ہیں۔
زلیخا وہ کتنا خوبصورت ہے نا؟ ملکہ شیر زماں کے خیالوں میں ڈوبی ہوئی زلیخا سے کہتی ہے، شیر زماں بھی بہت خوبصورت اور با اخلاق شخص تھا۔
کون؟ زلیخا نے حیرانگی سے پوچھا۔
گل کا دیور شیر زماں، ملکہ نے جواب میں کہا۔
اوئے ہوئے تو شیر زماں کے خواب دیکھے جا رہے ہیں، زلیخا شرارتی انداز میں بولی۔
ہاں زلیخا میں اس کے خواب دیکھنے لگی ہوں، شاید مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے، دل چاہتا ہے وہ ہر وقت میرے سامنے رہے، اور میں اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے ندی کنارے لے جاؤں اور ندی کنارے میرے اور اسکے سوا اور کوئی بھی نا ہو، ہلکی ہلکی بارش ہو ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ہو، اور ہم دونوں عشق کے سمندر میں بہتے چلے جائیں، ملکہ فلسفیانہ انداز میں بولتی چلی جا رہی تھی۔
ملکہ ہوش میں آؤ یہاں کوئی ندی نہیں ہے، زلیخا ملکہ کی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔ چلو تمہارا گھر آ گیا اب میں چلتی ہوں اپنے گھر۔
نہیں رکو زلیخا مجھے تم سے ایک کام ہے۔
کیا کام ہے؟ زلیخا نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
میں تمہیں ایک خط لکھ کر دیتی ہوں، کیا تم کسی طرح شیر زماں کے پاس پہنچا دو گی؟
ہممم! ٹھیک ہے لکھ دو میں قاصد کو دے دوں گی وہ پہنچا دے گا۔
ہاں پر زلیخا کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے۔
ارے تم فکر مت کرو کسی کو علم نہیں ہوگا، زلیخا نے مسکرا کر کہا، اور پھر ملکہ خط لکھ کر زلیخا کو دیتی ہے۔
چلو آج تو دیر ہو چکی ہے میں کل کو قاصد کو دے دوں گی۔ زلیخا اتنا کہہ کر اپنے گھر چلے جاتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔