پیر، 14 فروری، 2022

تھا مستعار حسن سے

 تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا

خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

 

ہنگامہ گرم کن جو دل ناصبور تھا

پیدا ہر ایک نالے سے شور نشور تھا

 

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں 

معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

 

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم

یک شعلہ برق خرمن صد کوہ طور تھا

 

مجلس میں رات ایک ترے پر توے بغیر

کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا

 

اس فصل میں کہ گل کا گریباں بھی ہے ہوا

دیوانہ ہو گیا سو بہت ذی شعور تھا

 

منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا

اس رند کی بھی رات گذر گئی جو عور تھا

 

ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر

اس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا

ق

کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا

یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

 

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر

میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا

 

تھا وہ تو رشک حور بہشتی ہمیں میں میرؔ

سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنے قصور تھا

میر تقی میر

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں