پیر، 14 فروری، 2022

نکلے ہے چشمہ جو کوئی

نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا

یاد دہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا

 

لطف اگر یہ ہے بتاں صندل پیشانی کا

حسن کیا صبح کے پھر چہرۂ نورانی کا

 

کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لیے

حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا

 

درہمی حال کی ہے سارے مرے دیواں میں 

سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا

 

جان گھبراتی ہے اندوہ سے تن میں کیا کیا

تنگ احوال ہے اس یوسف زندانی کا

 

کھیل لڑکوں کا سمجھتے تھے محبت کے تئیں 

ہے بڑا حیف ہمیں اپنی بھی نادانی کا

 

وہ بھی جانے کہ لہو رو کے لکھا ہے مکتوب

ہم نے سر نامہ کیا کاغذ افشانی کا

 

اس کا منھ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں 

نقش کا سا ہے سماں میری بھی حیرانی کا

 

بت پرستی کو تو اسلام نہیں کہتے ہیں 

معتقد کون ہے میرؔ ایسی مسلمانی کا

میر تقی میر

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں