افسانہ
*کوچۂ یاراں میں آخری دن*
از قلم *ارسلان احمد عاکف*
21 جولائی کا آفتاب طلوع ہوتے ہی عندلہ کا دل بیٹھ گیا اُس کا شہر میں آخری روز تھا 22 جولائی کو عندلہ گوہر اور اسکے گھر والے دوسرے شہر میں منتقل ہونے جارہے تھے۔ عندلہ کو نئے شہر و نئے گھر کی ذرہ برابر خوشی نہ تھی اسے بس فارس سے جدائی کا غم کھائے جا رہا تھا۔ عندلہ بارہا اپنا موبائل چیک کرتی، اسکی آنکھیں فارس کے آن لائن ہونے کا انتظار کر رہی تھیں ولے اسکا دل فارس کو روبرو پانے کا منتظر تھا۔ آسماں پر اداسی کے سرمئی بادل چھائے ہوئے تھے آفتاب کی روشنی بادلوں کا سینا چیڑتے ہوئے زمین سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھی یہ اہلِ زمانہ کے لیے اک دلکش منظر تھا ولے عندلہ پہ یہ بادل اور دھوپ کڑی گزر رہی تھی یہ دن انتہائی کٹھن تھا عندلہ کہ اندر چڑچڑا پن آ رہا تھا۔ انتظار کرتے کرتے دوپہر ہو جاتی ہے ولے عندلہ کی حالت ایسے ہوتی ہے جیسے برسوں سے انتظار کر رہی ہو آخرِ کار خود فارس کا نمبر ملاتی ہے اور حال احوال کرتے ہی نیٹ ورک چلا جاتا ہے اور کال کٹ جاتی ہے اسی کشمکش میں شام پڑ جاتی ہے عندلہ اپنی سہیلیوں سے ملنے کے بہانے سہیلیوں کے سنگ فارس کے گھر جا رہی ہوتی ہے راہ میں وہ فارس کو کہیں جاتے دیکھ کر قدرے خوشی محسوس کرتی ہے ولے فارس اپنے دھیان گزر جاتا ہے عندلہ سہیلیوں کے سنگ اسے پکار بھی نہ سکی یوں عندلہ اداس آنکھیں لیے واپس لوٹتی ہے سرِ راہ اسکی آنکھیں فارس کو ڈھونڈتی ہیں ولے فارس اسے کہیں نہیں ملتا، یہ اک دن عندلہ پہ سال برابر تھا، تمام دن انتظار، بے بسی اور اداسی میں گزر گیا شام پڑ چکی تھی آفتاب غروب ہو رہا تھا پرندے گھروں کو لوٹ رہے تھے، عندلہ پہ یہ غروبِ آفتاب ایسے گزر رہا تھا کہ جیسے زندگی کا آخری دن ہو، سورج کی روشنی دھیمی پڑ گئی فضاؤں میں سیاہ اندھیرا چھا گیا عندلہ مکرر موبائل کو بارہا دیکھتی فارس کے میسج کے انتظار میں رات کے دس بج جاتے ہیں شب کی تاریکی خوفزدہ منظر پیش کر رہی تھی، آخر کار فارس کا میسج آجاتا ہے عندلہ کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے۔
السلام علیکم
و علیکم السلام
کیا حال ہیں؟
میں ٹھیک ہوں تم سناؤ کیسے ہو سارا دن کہاں غائب تھے میں بہت بے چین تھی تمہارے میسج کا انتظار کر رہی تھی تمہیں ملنے بھی آئی ولے تمہارا دھیان آسمانوں پہ تھا کس قدر لاپرواہ ہو تم تمہیں معلوم بھی ہے میں کل جا رہی ہوں
جانتا ہوں میں نے دیکھا تھا تمہیں تمہارے ساتھ سہیلیاں تھی میں پارسائی کا مان رکھتے ہوئے نظریں جھکا کر گزر گیا
فارس میں کل جا رہی ہوں
جانتا ہوں اور یہ بھی کہ تم جاکر مجھے بھول جاؤ گی
کبھی نہیں بھولوں گی میں واپس آوں گی
جہاں تم جا رہی وہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا تم بھی وہاں جاکر بدل جاؤ گی، فارس نے افسردہ اموجی کے ساتھ ٹیکس کیا
تم مری مخلصی پہ شک کر رہے ہو فارس
نہیں من یارم
تو پھر ایسی باتیں کیوں میں ضرور آؤں گی تم مرا انتظار کرنا
انشاء اللہ
فارس اور عندلہ دیر رات تک باتیں کرتے ہیں اور آخر میں عندلہ کہتی ہے کہ
" *فارس میں کل جا ضرور رہی ہوں ولے عندلہ گوہر سے عندلہ فارس بننے کے لیے لوٹ کر ضرور آؤں گی تم مرا انتظار کرنا* "
محبت بخیر 💞