پیر، 3 اپریل، 2023

بس انسان ہوں میں


 میں کیا ہوں

میں خوابی پرندہ، ہما ہوں

یاں طوفان کی زد میں آیا دیا ہوں

نہیں میں تو کچھ بھی نہیں ہوں

میں پھر کیا ہوں آخر؟

میں صحرا میں تشنہ ہرن ہوں

یاں پھر جلوۂ نسترن ہوں

میں سندھو کے ساحل کی مٹی

یاں پربت کی نایاب بوٹی

میں تاریکیوں کا ہوں بے نام سایہ

یاں اجڑے سرائے کا سہما تماشا

میں پاری نگر کی پرانی حویلی

یاں دریا کے ساحل پہ سوکھی چمیلی 

میں سوکھا ہوا اک شجر ہوں

یاں سویا ہوا نامہ بر ہوں

میں محفل میں خاموش سا اک مجسم

میں نادان سا ابنِ آدم

کسی بستی کی سستی دوکان ہوں میں

یاں ساقی کی بھٹی کی پہچان ہوں میں

گلستان سے بچھڑا ریحان ہوں میں

یاں ساغر کی غزلوں کا دیوان ہوں میں

میں کچھ بھی نہیں ہوں بس انسان ہوں میں

بس انسان ہوں ابنِ انسان ہوں میں

ارسلان احمد عاکف